اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا عشق ِ رسول اور تحفظِ ناموسِ رسالت:
عشق رسول تو جانِ ایمان اور روح ایمان ہے اور اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی سیرت کا سب سے نمایاں پہلو عشق رسول ہے ، اگرچہ علم و فتوی آپ کی بہت بڑی پہچان ہے، لیکن اس سے بڑھ کر اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی پہچان عشق رسول ہے ، آپ کا عشق ایسا تھا کہ اپنے اور بیگانے سب ہی اسے مانتے تھے۔ آپ کے مخالفین بھی مانتے تھے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ میں نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مَحَبَّت اور اس محبت میں شدت اور تَصَلُّب بہت اعلی قسم کا ہے۔ عظمت و ناموس رسالت کے تحفظ اور حفاظت کا مدار، قوتِ ایمانی اور غیرتِ عشق پر ہے ،جس میں ایمان جتنا مضبوط اور نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت جتنی زیادہ ہے ، اُس میں غیرتِ ایمانی اور عشق بھی زیادہ ہوگا اور اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وہ ہیں کہ جن کا قلم، زبان، تحریر، اٹھنا، بیٹھنا، نشست ، برخاست، گفتگو اور سفر و حضر سب کچھ حضور جانِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عشق و محبت سے لبریز تھا۔ آپ کی صبح و شام نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی یاد میں گزرنے والی اور آپ اپنی جان ، آقا کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر قربان کرنے والے تھے، بلکہ آپ میں نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت اس اعلیٰ درجے کی تھی کہ آپ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے جا بجا اس کا اظہار بھی فرمایا۔ چنانچہ آپ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں :
پارۂ دل بھی نہ نکلا دل سے تحفے میں رؔضا
اُن سگانِ کُوْ سے اتنی جان پیاری واہ واہ
یعنی اے رضا ! مدینے کے کتوں کو نذرکرنے کے لیے تجھ سے سینہ چِیر کر دل کا گوشت اور ٹکڑا کیوں نہ پیش ہوا؟ تمہیں کوچہِ حبیب اور مدینہ منورہ کے کتوں سے اپنی جان اِتنی پیاری ہے؟
اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا عشق اس مقام پر تھا کہ آپ فرماتے ہیں:
جان و دل ہوش و خِرَد سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا ، سارا تو سامان گیا
قافلہِ حجاز اور امام کے دل کا اضطراب::
اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے عشقِ مصطفیٰ کا ایک خوبصورت واقعہ یہ ہے کہ جب اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے بھائی اور صاحبزادےکو سفرِ مدینہ پر روانہ کرنے گئے، جب وہاں رخصتی کا وقت قریب ہوا، تو آپ کی اپنی بے قراری میں ایسا اضافہ ہوا کہ اُس بارگاہِ عالی شان میں حاضری کو دِل شدید مچلنے لگا، اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ یہ واقعہ خود اپنے خوبصورت انداز میں یوں بیان فرماتے ہیں:”دوسری بار جب مکہ معظمہ حاضر ہوا ،یکا یک جانا ہوگیا ،پہلے سے کوئی ارادہ نہیں تھا ۔ ننھے میاں (چھوٹے بھائی مولا نا محمدرضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ )اورحامدرضاخاں(اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے بڑے شہزادے) مع متعلقین بارادہِ حج روانہ ہوئے۔ لکھنو تک ان لوگوں کو پہنچا کر میں واپس آ گیا، لیکن طبیعت میں ایک قسم کا انتشار رہا(یعنی حاضری مدینہ کے لیے بے قراری رہی)۔ ایک ہفتہ یہاں رہا، طبیعت سخت پریشان رہی ۔ ایک روز عصر کے وقت زیادہ اضطراب ہوا اور دل وہاں (یعنی حرمین طیبین ) کی حاضری کے لیے زیادہ بے چین ہوا۔ بعدِ مغرب مولوی نذیر احمد صاحب کو اسٹیشن بھیجا کہ جا کر بمبئی تک سیکنڈ کلاس رِزَرو (Reserve )کروالیں کہ نمازوں کا آرام رہے ۔انہوں نے اسٹیشن ماسٹر سے گاڑی مانگی ، اس نے پوچھا: کس ٹرین سے ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا :اسی شب میں دس بجے والی گاڑی سے ۔ وہ بولا : یہ گاڑی نہیں مل سکتی ،اگر آپ کو اس سے جانا تھا، تو چوبیس گھنٹے پیشتر اطلاع دیتے۔ بیچارے مایوس ہوکر لوٹنا چاہتے تھے کہ ایک ٹکٹ کلکٹرجو قریب رہتا تھا، مل گیا۔ اس نے کہا تم گھبراؤ مت ! میں چلتا ہوں اور اسٹیشن ماسٹر سے جا کر کہتا ہوں۔اسٹیشن ماسٹر نے اس کی بات سن کر ایک سو تریسٹھ روپے پانچ آنے لے کر سیکنڈ کلاس کا کمر ہ رِزَرو(Reserve) کردیا۔
عشا کی نماز سے اول وقت فارغ ہولیا۔ صرف والدہ ماجدہ سے اجازت لینا باقی رہ گئی جو نہایت اہم مسئلہ تھا اور گویا اس کا یقین تھا کہ وہ اجازت نہ دیں گی۔ کس طرح عرض کروں؟ اور بغیر اجازتِ والدہ حج نفل کو جانا حرام ۔ آخر کار اندر مکان میں گیا، دیکھا کہ حضرت والدہ ماجدہ چادر اوڑھے آرام فرماتی ہیں ۔ میں نے آنکھیں بند کر کے قدموں پر سر رکھ دیا، وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھیں اور فرمایا: ” کیا ہے؟ میں نے عرض کیا :” حضور! مجھے حج کی اجازت دے دیجیے۔ پہلا لفظ جوفر مایا، وہ یہ تھا کہ ”خدا حافظ“ یہ (یعنی والدہ کا یوں بآسانی اجازت دے دینا )انہیں دعاؤں کا اثر تھا۔ میں الٹے پیروں باہر آیا اور فوراً سوار ہوکر اسٹیشن پہنچا۔( )
اب دیکھیں کہ عشقِ مدینہ ایسا غالب کہ زائرین کو چھوڑنے جائیں اور ایسی بے قراری ہو کہ تقریباً پچاس سال کی عمر میں اتنی مشقت و مشکلات والا سمندری سفرطے کرنے کے لیے فوراً خود بھی تیار ہوجائیں سبحان اللہ۔ اِسی واقعہ کی حقیقی تصویر یہ شعر ہے:
جان و دل ہوش و خرد سب تو مدینے پہنچے تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا
روضہ پر اِک نگاہ پڑ جائے، اگرچہ اُسی وقت دَم نکل جائے:
اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہل سنّت،امام اَحمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے دُوسرے سَفَرِ حج میں اَرْکانِ حَج ادا کرنے کے بعد سخت بیِمارہوگئے، مگر آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:”بیماری کے طَوِیل ہوجانےمیں مجھے زِیادہ فِکْر،حاضِر یِ سَر کارِ اَعظم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تھی۔جب بُخار کو طُول پکڑتا دیکھا ،میں نے اُسی حالت میں قَصْدِ حاضِری کِیا،(عرب شریف کے )عُلَماء روکنے لگے۔اَوَّل تو یہ فرمایا کہ حالت تو تمہاری یہ ہے اور سَفَر طَوِیل!میں نے عَرْض کی:’’اگر سچ پُوچھئے تو حاضِری کا اَصْلِ مقصود زِیارتِطَیۡبَہ ہے، دو نوں بار اِسی نیّت سے گھر سے چلا،مَعَاذَ اللہ اگر یہ نہ ہو توحج کا کچھ لُطْف(مزہ) نہیں۔‘‘اُنہوں نے پھر اِصرار اور میری حالت کا اِشْعَار کیا(یعنی مجھے میری حالت یاد دِلائی)۔ میں نے حدیث پڑھی:”مَنْ حَجَّ وَلَمْ یَزُرْنِیْ فَقَدْ جَفَانِیْ“یعنی جس نے حج کِیا اور میری(قَبْر کی) زِیارَت نہ کی اُس نے مجھ پرجَفا کی“(عرب شریف کے علماء نے)فرمایا: تم ایک بار تو زِیارَت کَرچُکے ہو۔ میں نے کہا: میرے نزدیک حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ عُمْر میں کتنے ہی حج کرے زِیارَت ایک بار کافی ہے، بلکہ ہر حج کے ساتھ زِیارَت ضرور(یعنی لازمی)ہے ،اب آپ دُعا فرمایئے کہ میں سَرکار(صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) تک پَہُنچ لُوں۔رَوضَۂ اَقدَس پر ایک نِگاہ پڑ جائے اگر چِہ اُسی وَقت دَم نکل جائے۔“( )
آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے ایک کلام میں اِسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اس کے طُفیل حج بھی خُدا نے کرا دِیئے
اَصلِ مُراد حاضِری اس پاک دَر کی ہے
احمد رضا کو یاد کرنے سے میری روح کو بالیدگی ملتی ہے:
اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے عشق و محبت کا بیان حضرت مولانا وَصِی احمد محدث سُوْرَتی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1334ھ/ 1916ء) کی زبانی سنیے ۔یہ اُس وقت کا واقعہ ہے کہ جب سرزمین پیلی بھیت پر محدث اعظم ہند اپنے استاذ محترم محدث سورتی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہما کے مدرستہ الحدیث میں زیرتعلیم تھے ۔ زینتِ خاندانِ اشرفیہ حضرت محدث اعظم ہند رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:” میرے استاذفن حدیث کے امام مولانا شاہ وصی احمد صاحب رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے میں نے پوچھا کہ آپ تو حضرت مولانا شاہ فضل رحمن صاحب گنج مراد آبادی سے مرید ہیں، لیکن میں دیکھتا ہوں کہ آپ کو جتنی عقیدت و محبت اعلی حضرت امام احمدرضا خان صاحب رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے ہے ، وہ کسی سے نہیں۔اعلیٰ حضرت کی یاد، ان کا تذکرہ، ان کے علم وفضل کا خطبہ، آپ کی زندگی کے لیے روح کا مقام رکھتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟حضرت محدث سورتی صاحب رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ سب سے بڑی دولت یعنی علم وہ نہیں ہے جو میں نے مولوی اسحاق محشی بخاری سے پائی اور سب سے بڑی نعمت وہ بیعت نہیں ہے، جو مجھے مولانا شاہ فضل رحمن صاحب گنج مراد آبادی سے حاصل ہوئی، بلکہ سب سے بڑھ کر دولت وہ ایمان ہے، جو مدارِ نجات ہے، وہ میں نے صرف اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے پایا اور میرے سینے میں پوری عظمت کے ساتھ مدینے کے بسانے والے اعلیٰ حضرت ہی ہیں،اسی لیے ان کے تذکرے سے میری روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے اور ان کے ایک ایک کلمے کو اپنے لیے مشعل ہدایت جانتا ہوں۔“ ( )
دل میں مدینہ بسانے والے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس کی صحبت میں تھوڑی دیر بھی بیٹھیں، تو اس کی زبان پرمدینے کا ذکر ہی جاری ہو اور وہ اپنے ہم نشینوں کو بھی مدینے کی محبت میں گما دے۔ یہ اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے سوزِ عشق کا مزاج ہے اور جب محبت و عشق ایسا ہوگا، تو یقینی بات ہے کہ محبوب کی عزت و ناموس کے تحفظ کا جذبہ اور جوش و ولولہ بھی اسی طرح کا ہوگا۔
عشقِ حبیب ہو تو ایسا ہو! اللہ اکبر:
حضرت حسان بن ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا ایک ایسا شعرہے کہ جو اعلیٰ حضرت کی ذات پر بہت اچھے انداز سے صادق آتا ہے۔ حضرت حسان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے کفارِ مکہ کے اعتراضات اور کفار کی طرف سے نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہونے والی توہین کے جواب میں اَشعارلکھے،ان میں ایک شعر یہ بھی تھا:
فَإِنَّ أَبي وَوالِدَهُ وَعِرضي لِعِرضِ مُحَمَّدٍ مِنكُم وِقاءُ
اے کافرو! تمہاری طرف سے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ناموس پر کیے جانے والے حملوں کی روک کے لیے میری اور ماں باپ کی عزتیں ڈھال ہیں۔ بالکل اِسی شعر کے حقیقی مصداق بنتے ہوئے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی اپنے دور میں اپنی عزت و آبرو کی پرواہ کیے بغیر اپنی ذات کو نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت و ناموس کے دفاع کے لیے ڈھال بنا یا ، بلکہ خود اس کا اظہار بھی فرمایا، جس کا ذکر آپ کی کتب میں ملتا ہے۔ جیسا کہ آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ جب منکرینِ شان رسالت کا رد کرتے تھے ، تو آپ کا قلم بہت سخت ہوتا تھا اور بڑے سخت الفاظ استعمال کرتے تھے ،تو اس پر بعض احباب نے کہا کہ حضور !علمی طور پر رد ہی کرنا مقصود ہے، لہٰذا اس میں اتنی سختی کرنے کی کیا وجہ ہے ؟ تو آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نےفرمایا : ”میں چاہتا ہوں کہ میرے اس انداز کی وجہ سے دشمن ، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گستاخی سے باز آجائیں اور میری ذات کے خلاف بول لیں تاکہ جتنی دیر وہ میرے خلاف بولنے میں لگے رہیں گے، کم از کم اُتنی دیر نبی پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں ان کی زبانیں خاموش ہوں گی۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:” ان شاء اللہ العزیز ذاتی حملوں پر کبھی التفات نہ ہوگا۔ سرکار سے مجھے یہ خدمت سپرد ہے کہ عزت سرکار کی حمایت کروں نہ کہ اپنی۔میں تو خوش ہوں کہ جتنی دیر مجھے گالیاں دیتے، افتراء کرتے، براکہتے ہیں، اتنی دیر محمد رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بدگوئی، منقصت جوئی سے غافل رہتے ہیں ، میں چھاپ چکا اورپھر لکھتاہوں، میری آنکھ کی ٹھنڈک اس میں ہے کہ میری اور میرے آباءِ کرام کی آبروئیں ، عزت محمدرسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لیے سپرر ہیں، اللھم اٰمین!“ ( )
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا یہ کلام حقیقت میں حضرت حسان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے شعر کی حقیقی تعبیر ہے کہ اے کافرو! تمہاری طرف سے ناموسِ مصطفیٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کیے جانے والے حملوں کی روک کے لیے میری اور ماں باپ کی عزتیں ڈھال ہیں۔
… ۔(حیات اعلی حضرت،صفحہ 219،مطبوعہ مکتبہ نبویہ، لاہور)
… ۔(حیات اعلی حضرت ،ص 365، ط: مکتبہ نبویہ/ملفوظات اعلی حضرت،حصہ دوم ،ص 182،مکتبۃ المدینہ)
… ۔(ملفوظات اعلی حضرت،حصہ دوم،صفحہ 201،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
… ۔(حیات اعلی حضرت،صفحہ 137،مطبوعہ مکتبہ نبویہ، لاہور)