تحفظِ عقیدہِ ختم نبوت اور اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ:
جب مرزا قادیانی اور دیگر کچھ لوگوں کی طرف سے ختمِ نبوت کے انکار کا فتنہ کھڑا کیا گیا اور نبوت کا دعویٰ کیاگیا ، نیز حضرت عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسَّلام اور دیگر بہت سارے انبیائے کرام علیہم الصلٰوۃ والسَّلام کی گستاخیاں کیں، تو اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس کے خلاف مؤثر علمی دلائل پیش فرمائے اوربطورِ خاص اس کے رد میں مُدلل کتابیں تصنیف فرمائیں ۔آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی اس موضوع پر یہ تصانیف مبارکہ ہیں:(1)جزاء اللہ عدوہ بابائہ ختم النبوۃ: یہ رسالہ 1317ھ میں تصنیف ہوا۔ اس میں عقیدہ ختم نبوت پر 120 حدیثیں اور منکرین کی تکفیر پر جلیل القدر ائمہ کرام کی تیس تصریحات پیش کی گئی ہیں۔(2)السو ء والعقاب علی المسیح الکذاب: یہ رسالہ 1320ھ میں تحریر ہوا ، اس میں دس وجوہات سے مرزا غلام قادیانی کا کفر ثابت کیا گیا۔(3) قہر الدیان علی مرتد بقادیان: یہ رسالہ 1323ھ میں لکھا گیا۔ اس میں جھوٹے مسیحِ قادیان کے شیطانی الہاموں، اس کی کتابوں کے کفریہ اَقوال کو نقل کیا گیا، نیز سیدنا عیسٰی علیہ الصلٰوۃ والسَّلام اور ان کی والدہ ماجدہ سیدہ مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی طہارت اور ان کی عظمت کو اجاگر کیا گیا ہے۔(4)المبین ختم النبین: یہ رسالہ 1326ھ میں تصنیف فرمایا۔(5) الجزار الدیان علی المرتد القادیان: یہ رسالہ 3محرم الحرام 1340ھ کو لکھا گیا اوراس رسالے کی تحریر کے اگلے مہینے میں اسی سال 25صفر المظفر 1340ھ کو آپ کا وصال ہوا۔(6) المعتقد: اس عظیم کتاب میں بھی عقیدہ ختم نبوت اور مرزا غلام احمد قادیانی کی تکفیر پر شاندار کلام ہے۔
درودِ تاج پر اعتراض کا رَدِّ بلیغ:
جس طرح آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے شانِ رسالت کے دوسرے پہلوؤں پر ایسا پہرا دیا کہ جب بھی کسی نے شانِ رسالت کے بارے میں لوگوں کو وسوسوں میں ڈالنے کی کوشش کی، تو آپ نے قرآن و حدیث کے دلائل سے اس کا بھرپور انداز سے جواب دیا، مثلا درود تاج میں نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ایک وصف مبارک ہے:”دافع البلاء و الوباء والقحط و المرض وَ الْاَلَم“ کہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ بلاؤں، وباؤں ، قحط ، بیماریوں اور پریشانیوں کو دور کرنے والے ہیں ۔ اس پر کسی نے اعتراض کیا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو” دافع البلاء و الوباء ۔۔۔۔ الخ“ کہنا اور مالک و مختار ماننا درست نہیں، بلکہ معاذاللہ شرک اور بدعت سیئہ ہے ۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نےاس اعتراض کے جواب میں ایک مبسوط کتاب بنام ”الامن والعلیٰ لناعتی المصطفیٰ بدافع البلاء“ تصنیف فرمائی اور اس کتاب میں 300 احادیث اور 50 آیات مبارکہ سے ثابت کیا کہ نبی مکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مالک و مختار ماننا اور دافع البلاء و الوباء کہنا بالکل درست اور عین قرآن و حدیث کے مطابق ہے۔دیکھیے کہ ایک وصف مبارک پر اعتراض ہوا اور آپ نے اس کے تحفظ کے لیے ایک ضخیم کتاب مرتب فرما دی ۔
سید المرسلین صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیادت پر دلائل:
جب نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سید المرسلین یعنی تمام رسولوں کے سردار ہونے کے عقیدے پر کچھ لوگوں نے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سب رسولوں کے سردار ہونے کا عقیدہ بے بنیاد ہے، حالانکہ بالاتفاق یہ تمام مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ہے کہ ہمارے آقا و مولا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام رسولوں کے سردار ہیں، لہذا جب اعتراض ہواتو اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس موضو ع پر بھی ایک مستقل کتاب لکھی، جس کا نام ”تجلی الیقین بان نبینا سید المرسلین “ہے۔اِس رسالہ میں انتہائی احسن انداز سے آپ نے اس عقیدہ کے متعلق آیاتِ مبارکہ پیش فرمائیں اور ایسی روانی اور شائستگی کے ساتھ انہیں مرتب فرمایا ہے کہ کتاب پڑھنے سے ایسا لگتا ہے کہ دنیا کے اعلی موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار تیار کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں دلائل کا انداز یہ ہے کہ ہر دلیل میں پہلے ایک مرکزی آیت ہے، پھر اس کے نیچے آیات کی ایک پوری لائن ہے، جیسا کہ اس کتاب کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں بہت سے نبیوں کا ذکر فرمایا ،جن سے اللہ نے خطاب کیا اور تمام انبیاء کو ان کے ناموں کے ساتھ ”یا آدم، یا نوح، یا موسیٰ، یا یحییٰ، یا عیسیٰ، یا زکریا، یا شعیب“ کہہ کر کلام فرمایا، لیکن پورے قرآن میں نبی پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کسی بھی جگہ نام لے کر نہیں پکارا ، بلکہ”یاایھا الرسول ، یا ایھا النبی، یا ایھا المزمل، یا ایھا المدثر “جیسے محبت و عظمت والے القاب کے ساتھ خطاب فرمایا ۔ یوں متعلقہ تمام آیات کو ایک ترتیب سے ذکر فرمایا ہے، یوں ہی اس کے علاوہ دلائل کو ذکر کیا گیا ہے، پھر اِس کتاب میں آیاتِ مبارکہ کے بعد احادیث مبارکہ بھی نبی پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان پاک میں اُسی روانی کےساتھ نقل کی ہیں کہ ایمان تازہ ہو جاتا ہے اور انہیں پڑھنے میں کیا ہی مزہ آتا ہے ، پھر اس کے بعد تورات، انجیل، زبور کی آیات و روایات بھی نقل فرمائی ہیں ۔ یہ کتاب ظاہراً مختصر (سو سے کچھ اوپر صفحات پر مشتمل )ہے، لیکن اگر اس کو مکمل شَرْح وبَسْط کے ساتھ لکھا جائے ،تو یہ پانچ، چھ سو صفحات کی کتاب بن سکتی ہے ۔
جبریل امیں خادم دربان محمد صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ! و علیہ الصلوٰۃ والسلام:
جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نبی پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خادم ہیں اور آقا کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مرتبہ ان سے نہایت بلند ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام کا مقام بہت بڑا ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ہے: (ذِیْ قُوَّةٍعِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَكِیْنٍ ، مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ) ترجمہ کنزالعرفان:جو قوت والا ہے ، عرش کے مالک کے حضور عزت والا ہے۔وہاں اس کا حکم مانا جاتا ہے ،امانت دار ہے۔( )
اللہ کی بارگاہ میں اُن کی بڑی شان ہے، لیکن پھر بھی حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خادم ہیں۔ اِس پر کسی کوشبہ ہوا کہ اتنی بڑی ہستی کے بارے میں ایسا لفظ کہنا درست نہیں ، تو اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس موضوع پر ایک علمی وتحقیقی رسالہ لکھا اور اس کا نام یہ تھا ”اجلال جبریل بجعلہ خادما للمحبوب الجمیل “ یعنی یہ جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی عزت ہے کہ انہیں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا خادم بنایا گیا ہے ۔ اس میں آپ نے ثابت فرمایا کہ حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام کوآقائے کونین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ کا خادم بنائے جانے میں جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کی بےادبی نہیں، بلکہ یہ تو ان کا بہت اکرام و اعزاز ہے ۔
یہاں چند مثالیں بیان کی گئی ہیں، ورنہ یوں کہنا ہر گز غلط نہ ہو گا کہ اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تمام کتابوں میں یہی اَنوار، خوبصورتی، حسن اور کمال نظر آتا ہے کہ جہاں پر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حوالے سے کچھ منفی کلام کیا گیا، تو اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قلم عشق ِرسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور عظمت و ناموس رسالت کے بیان میں ایسا رواں ہوتا ہے کہ ایک ایک سطر پڑھ کے ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے علوم کا سرچشمہ اور مختلف علوم و فنون میں مرتبہ امامت :
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی علمی بلندی میں محنت و کوشش سے حاصل کیے گئے علوم سے زیادہ علم وہبی اور علم لَدُنِّی کا عمل دخل ہے، جو خاص عطیہ الٰہیہ (خاص انعام)ہے اور یہ بات اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے خود بھی کئی مقامات پر ذکر فرمائی ہے، چنانچہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ”شرح چغمینی“ شروع کی تھی کہ حضرت والد ماجد نے فرمایا: کیوں اپنا وقت اس میں صرف کرتے ہو؟ مصطفے پیارے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سرکار سے یہ علوم تم کو خود ہی سکھا دیئے جائیں گے، چنانچہ یہ جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں، اِس گھر کی چار دیواری کے اندر بیٹھا خود ہی کرتا رہتا ہوں۔ یہ سب سرکار رسالت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کرم ہے۔“( )
شہزادہ اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم ہند رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: ایک روز حضرت مولانا شاہ سیداحمد اشرف صاحب کچھوچھوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ تشریف لائے ہوئے تھے۔ رخصت کے وقت انہوں نے عرض کیا کہ اپنے بھانجے مولوی سید محمد صاحب اشرفی کو چاہتا ہوں کہ حضور کی خدمت میں حاضرکردوں،حضور جو مناسب خیال فرمائیں ان سے کام لیں ۔ ارشاد ہوا :”ضرور تشریف لائیں، یہاں فتوے لکھیں اور مدرسے میں درس دیں ۔“سید محمد اشرفی صاحب تو میرے شہزادے ہیں، میرے پاس جو کچھ ہے، وہ انہیں کے جد امجد یعنی حضور سید ناغوث اعظم رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا صدقہ وعطیہ ہے۔“( )
دوسرے دن سید محمد صاحب اشرفی کو کارِافتاء پر لگانے سے پہلے خود گیارہ روپے کی شیرینی منگائی ،اپنے پلنگ پر مجھ کو بٹھا کر اور شیرینی رکھ کر فاتحہ، ختم غوثیہ پڑھ کر دستِ کرم سے شیرینی مجھ کو بھی عطا فرمائی اور حاضرین میں تقسیم کا حکم دیا۔(کیا دیکھتا ہوں ) کہ اچانک اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ پلنگ سے اُٹھ پڑے ۔ سب حاضرین بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے کہ شاید کسی حاجت سے اندر تشریف لے جائیں گے، لیکن حیرت بالائے حیرت یہ ہوئی کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ زمین پر اکڑوں بیٹھ گئے ۔سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہو رہا ہے ۔ دیکھا تو یہ دیکھا کہ تقسیم کرنے والے کی غفلت سے شیرینی کا ایک ذرہ زمین پر گر گیا تھا اور اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس ذرہ کوزبان کی نوک سے اُٹھا رہے ہیں اور پھر اپنی نشست گاہ پر بدستور تشریف فرما ہوئے ۔ اِس واقعہ کو دیکھ کر سارے حاضرین سرکارِ غوثیت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عظمت و محبت میں ڈوب گئے اور فاتحہ غوثیہ کی شیرینی کے ایک ایک ذرے کے تبرک ہو جانے میں کسی دوسری دلیل کی حاجت نہ رہ گئی اور اب میں نے سمجھا کہ بار بار مجھ سے جو فرمایا جاتا کہ میں کچھ نہیں ، یہ آپ کے جد امجد (حضورغوث پاک رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ) کا صدقہ ہے و ہ مجھے خاموش کر دینے کے لیے ہی نہ تھا اور نہ صرف مجھ کو شرم دلانا ہی تھا،بلکہ درحقیقت اعلیٰ حضرت ، حضور غوث پاک رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ہاتھ میں ’’چوں قلم در دستِ کاتب ‘‘(جیسے لکھنے والے کے ہاتھ میں قلم) تھے، جس طرح کہ غوثِ پا ک سرکار دو عالم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہاتھ میں ’’چوں قلم در دستِ کاتب ‘‘تھے ۔( )
سبحان اللہ! واضح ہوا کہ اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے علم کا مَنبع سرکار دو عالم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور سرکار غوث پاک رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی بارگاہ ہے۔ پہلے سمجھاجاتا تھا کہ اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ پچپن علوم میں ماہر ہیں ،اُس وقت جو علوم کا ابتدائی شمار تھا، اس کے اعتبار سے پچپن علوم بنتے تھے، لیکن پھر جب اس میں مزید تنوع پیدا ہوا اور علوم کی مزید شاخیں وجود میں آئیں توواضح ہوا کہ مجموعی طور پر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ جن علوم میں ماہر تھے،ان کی تعداد سو سے بھی زیادہ ہے اور اُن علوم کے متعلق اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی معلومات جُزْوِی اور سرسری نہیں ، بلکہ اس قدرکامل مہارت تھی کہ آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عظمت و شان ہر فن میں عیاں تھی اور آج تک علمائے کرام اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے مختلف علوم کی مہارت کو مختلف انداز میں بیان کر رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اب بھی بہت سارے علوم ایسے ہیں، جن میں آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی مہارت و کمال پر بطور خاص کسی نے کام نہیں کیا، جیسے مرزا غالب کا اردو ادب اور فارسی ادب میں بڑا مقام ہے۔ مکاتیب غالب اور خطوط غالب کو ا س میں ایک مثال کی حیثیت حاصل ہے کہ اُن میں غالب نے ایسا بلندکلام کیاہے۔ اسی طرح اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے خطوط کئی جلدوں میں چھپ چکے ہیں ، ایک بہت جید عالم دین نے اس پر کام کیا ہے ، کلام میں کہاں اپنائیت ہونی چاہیے، کہاں محبت ہونی چاہیے، کہاں شفقت ہونی چاہیے، کہاں ادب ہونا چاہیے، کہاں علمی وقار ہونا چاہیے، کہاں شان علم کا اظہار ہونا چاہیے ، کہاں عاجزی ہونی چاہیے، کہاں برابری کی بنیاد پر گفتگو ہوگی ، کہاں سامنے والے کو تنبیہ کرنی ہے، کہاں تہدید کرنی ہے اورکہاں تفہیم کرنی ہے ، یعنی کلام کے جتنے پہلو بھی آپ سمجھ سکتے ہیں ،اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنے خطوط میں ان سارے اَسالیب کو استعمال کیا ہے اور پھر جیسی بات، اُس کے لیے ویسے الفاظ اور جیسے الفاظ ویسی اُس کی تاثیر ۔ کسی جگہ ایک ایک سطر ایسی ہے کہ شاید دوسرے کے صفحے پر بھاری ہو ۔
… ۔(فتاوی رضویہ،جلد 15،صفحہ 88،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
… ۔(پارہ30، سورۃالتکویر،آیت20،21)
… ۔(حیات اعلی حضرت ،صفحہ 238،مطبوعہ مکتبہ نبویہ، لاہور)
… ۔( ملتقطاً ملفوطات اعلی حضرت،حصہ اول،صفحہ 141،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
… ۔(مجدد اسلام ،صفحہ 165،رضا اکیڈمی،لاہور)