غم ہو گئے بے شُمار آقا
غم ہو گئے بے شمار آقا
بندہ تیرے نثار آقا
ِبگڑا جاتا ہے کھیل میرا
آقا آقا سنوار آقا
منجدھار پہ آ کے ناؤ ٹوٹی
دے ہاتھ کہ ہُوں میں پار آقا
ٹوٹی جاتی ہے پیٹھ میری
لِلّٰہ یہ بوجھ اُتار آقا
ہلکا ہے اگر ہمارا پلّہ
بھاری ہے تِرا وقار آقا
مجبور ہیں ہم تو فِکر کیا ہے
تم کو تو ہے اِختیار آقا
میں دُور ہوں تم تو ہو مِرے پاس
سُن لو میری پکار آقا
مجھ سا کوئی غمزدہ نہ ہوگا
تم سا نہیں غم گُسار آقا
گرداب میں پڑ گئی ہے کشتی
ڈُوبا ڈُوبا، اُتار آقا
تُم وہ کہ کرم کو ناز تم سے
میں وہ کہ بدی کو عار آقا
پھر منھ نہ پڑے کبھی خزاں کا
دے دے ایسی بہار آقا