ان من الشعر لحکمۃ و ان من البیان لسحر
الحمد للہ المنان یہ دیوان جس کی ہر سطرِ مروارِ فصاحت کی سلکِ آبدار۔ جس کا ہر مصرع گلہائے بلاغت کا خوشنما ہار۔ بلکہ ہر لفظ عمدہ، پاکیزہ زیورِ حسن سے آراستہ۔ تحقیقِ صوری و معنوی کا دریا خوبی کے سانچے میں ڈھلا ہوا بحر محبت محبوبِ رب العزت کمال جوش و خروش میں لانے والا جاں نثارانِ سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کومست و بیخود بنانے والا۔ سبحان اللہ وہ دیوان جس کی نظیر عالم میں مفقود، سراپا محمود مسعود، مسمےٰ باسمِ تاریخی
حدائقِ بخشش
۔ 1325 ہجری
از نتائج طبع رسائے سرآمد فصحا و بلغاء استاذ الشعرا، سید المحقیقین واقفِ رموزِ جلیہ و خفیہ، کاشفِ غوامضِ علمیہ ، حلالِ مشکلاتِ ہر علم و فن، علامہء زمن ، مرجع العلماء ، تاج الکملاء محی الملۃ و الدین، امام الاسلام و المسلمین، مولانا مولوی حاجی احمد رضا خان صاحب قادری رحمۃ اللہ علیہ۔
حدائقِ بخشش کی سب سے پہلی اشاعت پر درج بالا ٹائیٹل تحریر کیا گیا۔
اردو ادب کی تاریخ میں انقلاب برپا کردینے والی شہرہ آفاق کتاب۔ جس میں علم عروض کے حساب سے سب سے زیادہ بحروں پر مشتمل کلام موجود ہے. کلام الامام و امام الکلام کا بین ثبوت لئے یہ مجموعہء کلام بارگاہ رسالت میں بلاشبہ مقبول ہے اور اس کی مقبولت عامہ نے اسے لازوال بنا دیا
Poetry is wisdom, and eloquence is magic
Alhamdulillah Al-Manan, this collection of poetry, whose every line is rich in eloquence. Every stanza of which is a delightful garland of fluency. Rather, every word is adorned with a fine, pure jewel of beauty. The river of visual and spiritual research is the sea of love molded in the mold of virtue, the beloved of the Almighty, the one who brings excitement and passion to the souls of the Devotees of Sayyid al-Alam, peace and blessings be upon him. Glory be to Allah, the Diwan (collection) whose example is missing in the world, which is praised by all. Named as per Islamic Year
Hadaiq-e-Bakhshish
1325 Hijri
from the results of the Sophistication of the best of Eloquets, Master of Poets, The Chief of researchers, who knows the clear and secret codes, the discoverer of the obscure knowledge, the problem solver of every knowledge and Art, Scholar of the world, The reference of Intellectuals, The Crown of Perfectionists, The reviver of religion and nation, Imam- of Islam and Muslims, Maulana Maulvi Haji Ahmad Raza Khan Qadri may Allah have mercy on him.
The above title was written on the first publication of Hadaiq-e Bakhshish.
A revolutionary book in the history of Urdu poetry which contain the most number of Bahr as per the rules of science of prosody (il’mul-urooz). The collected odes of historical couplets by the Imam of Kalam Alahazrat Imam Ahmad Raza
<!––nextpage––>
واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا
واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا
تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرہ تیرا
فیض ہے یا شہ ِتسنیم نرالا تیرا
آپ پیاسوں کے تجسس میں ہے دریا تیرا
اغنیا پلتے ہیں د ر سے وہ ہے باڑا تیرا
اصفیا چلتے ہیں سر سے وہ ہے رستا تیرا
فرش والے تیری شوکت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا
آسماں خوان زمین خوان زمانہ مہمان
صاحب ِخانہ لقب کس کا ہے تیرا تیرا
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا
بحر ِسائل کا ہوں سائل نہ کنویں کا پیاسا
خود بجھا جائے کلیجا مرا چھینٹا تیرا
چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں یا ں اسکے خلاف
تیرے دامن میں چھپے چور انوکھا تیرا
آنکھیں ٹھنڈی ہوں جگر تازے ہوں جانیں سیراب
سچے سورج وہ دل آرا ہے اجالا تیرا
دل عبث خوف سے پتا سے اڑا جاتا ہے
پلہ ہلکا سہی بھاری ہے بھروسا تیرا
ایک میں کیا مرے عصیاں کی حقیقت کتنی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا
مفت پالا تھا کبھی کام کی عادت نہ پڑی
اب عمل پوچھتے ہیں ہائے نکما تیرا
تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
خوار و بیمار خطا وار گنہ گار ہوں میں
رافع و نافع و شافع لقب آقا تیرا
میری تقدیر بری ہو تو بھلی کردے کہ ہے
محو و اثبات کے دفتر پہ کروڑا تیرا
تو جو چاہے تو ابھی میل مرے دل کے دھلیں
کہ خدا دل نہیں کرتا کبھی میلا تیرا
کس کا منہ تکئے کہاں جائیے کس سے کہئے
تیرے ہی قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا
تو نے اسلام دیا تو نے جماعت میں لیا
تو کریم اب کوئی پھرتا ہے عطیہ تیرا
دور کیا جانیئے بدکار پہ کیسی گزرے
تیرے ہی در پہ مرے بے کس و تنہا ہے تیرا
تیرے صدقے مجھے اک بوند بہت ہے تیری
جس دن اچھوں کو ملے جام چھلکتا تیرا
حرم طیبہ و بغداد جدھر کیجئے نگاہ
جوت پڑتی ہے تیری نور ہے چھنتا تیرا
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کا شفیع
جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا
<!––nextpage––>
وصل دوم در منقبت آقائے اکرم حضور غوثِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعالٰی عَنْہُ
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اُونچے اُونچوں کے سَروں سے قدَم اعلیٰ تیرا
سر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا
اولیا ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا
کیا دَبے جس پہ حِمایت کا ہو پنجہ تیرا
شیر کو خطرے میں لاتا نہیں کُتّا تیرا
تُو حُسینی حَسَنی کیوں نہ محی الدّیں ہو
اے خِضَرمَجْمَعِ بَحْرَیْن ہے چشمہ تیرا
قسمیں دے دے کے کھلاتا ہے پلاتا ہے تجھے
پیارا ا للّٰہ تِرا چاہنے والا تیرا
مصطفیٰ کے تن ِبے سایہ کا سایہ دیکھا
جس نے دیکھامری جاں جلوۂ زیبا تیرا
اِبنِ زَہرا کو مبارک ہو عَروسِ قدرت
قادِری پائیں تصدّق مرے دُولہا تیرا
کیوں نہ قاسِم ہو کہ تُو ابنِ ابی القاسم ہے
کیوں نہ قادِر ہو کہ مختار ہے بابا تیرا
نبوی مینھ علوی فصل بتولی گلشن
حَسنی پھول حُسینی ہے مہکنا تیرا
نبوی ظِل عَلوی برج بتولی منزل
حَسنی چاند حُسینی ہے اُجالا تیرا
سیّدنا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فَرمُود کہ مَرامی فرمایَنْدْ : یَا عَبْدَ الْقَادِر بِحَقِّیْ عَلَیْکَ کُلْ وَ بِحَقِّیْ عَلَیْکَ اِشْرِبْ الخ۔۱۲منہ
نبوی خُور عَلَوی کوہ بتولی مَعْدِن
حَسنی لعل حُسینی ہے تجلّا تیرا
بحروبرشہر و قُریٰ سہل و حُزُن دشت و چمن
کون سے چَک پہ پہنچتا نہیں دعویٰ تیرا
حُسنِ نیّت ہو خطا پھر کبھی کرتا ہی نہیں
آزمایا ہے یگانہ ہے دوگانہ تیرا
عرضِ اَحوال کی پیاسوں میں کہاں تاب مگر
آنکھیں اے اَبر ِکرم تکتی ہیں رَستا تیرا
موت نزدیک گناہوں کی تَہیں مَیل کے خول
آ برس جا کہ نہا دھو لے یہ پیاسا تیرا
آب آمد وہ کہے اور میں تیمم برخاست
مُشتِ خاک اپنی ہو اور نُور کا اَہلا تیرا
جان تو جاتے ہی جائے گی قیامت یہ ہے
کہ یہاں مرنے پہ ٹھہرا ہے نظّارہ تیرا
تجھ سے در درسے سگ اور سگ سے ہے مجھکونسبت
میری گردن میں بھی ہے دُور کا ڈورا تیرا
اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے
حَشْر تک میرے گلے میں رہے پٹّا تیرا
میری قسمت کی قَسَم کھائیں سگانِ بغداد
ہِند میں بھی ہُوں تو دیتا رہوں پہرا تیرا
تیری عزّت کے نثار اے مِرے غیرت والے
آہ صد آہ کہ یُوں خوار ہو ِبروا تیرا
بد سہی، چور سہی، مجرم و ناکارہ سہی
اے وہ کیسا ہی سہی ہے تو کریما تیرا
حضرتِ شیخ مُحِیُّالدّین عبدالقادررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ دَر اَوائل ِعمر اَصحاب رامی فَرمود کہ َاولیاءِ عِراق مَرا تسلیم کردَہ اَند ، بعد اَز مُدَّتے فَرمود کہ اِیں زمانِ جمیع زمین ِشَرْق و غَرب و بَرو بَحروسَہل و جَبل مَرا تسلیم کردَہ اَند، وہیچ ولی اَزاَولیاء نَمانْد دَرا ن وقت مگرآں کہ بَرشیخ آمْد و تسلیم کَرْد اُ و رَا بَہ قُطبِیَّت ۔۱۲تحفہ قادریہ۔
مجھ کو رُسوا بھی اگر کوئی کہے گا تو یوں ہی
کہ وہی نا، وہ رضاؔ بندۂ رُسوا تیرا
ہیں رضاؔ یُوں نہ بلک تو نہیں جَیِّد تو نہ ہو
سیِّدِ جَیِّدِ ہر دَہر ہے مولیٰ تیرا
فخرِ آقا میں رضاؔ اور بھی اِک نظمِ رفیع
چل لکھا لائیں ثنا خوانوں میں چہرا تیرا
اشارہ بقولِ او رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ’’ وَ اِنْ لَّمْ یَکُنْ مُرِیْدِیْ جَیِّدًا فَاَنَا جَیِّدٌ ‘‘۔۱۲
<!--nextpage-->
وَصلِ سوم دَر حُسنِ مُفاخَرَت اَز سرکارِ قادریت رَضِیَ اللّٰہُ تَعالٰی عَنْہُ
تُو ہے وہ غوث کہ ہر غوث ہے شیدا تیرا
تُو ہے وہ غوث کہ ہر غوث ہے شیدا تیرا
تُو ہے وہ غیث کہ ہر غیث ہے پیاسا تیرا
سورج([2])اگلوں کے چمکتے تھے چمک کر ڈُوبے
اُفق نور پہ ہے مہر ہمیشہ تیرا
مُرغ([3])سب بولتے ہیں بول کے چُپ رہتے ہیں
ہاں اَصیل ایک نوا سَنْج رہے گا تیرا
جو([4])وَلی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہوں گے
سب اَدب رکھتے ہیں دِل میں مِرے آقا تیرا
بقسم کہتے ہیں شاہانِ صریفین([5])و حریم
[2] ترجمۂ آنچہ فَرمود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ : شعر’’ اَفَلَتْ شُمُوْسُ الْاَوَّلِیْنَ وَشَمْسُنَا اَبدًا عَلٰی اُ فُقِ الْعُلٰی لَا تَغْرُِبُ‘‘۔۱۲
[3] ترجمۂ آنچہ سیّدی تاج العارفین ابو الو َفا قُدِّسَ سِرُّہ سیدُنارَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہ گُفْت : ’’کُلُّ دِیْکٍ یَصِیْحُ وَ یَسْکُتُ اِلَّا دِیْکُکَ فَاِنَّہٗ یَصِیْحُ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃ‘‘ ہر خَرُوس بانگ کُنَد و خاموش شَوَد جُز خَرُوسِ شُما کہ تا قیامت در بانگ است۔۱۲
[4] ترجمہ ارشادِ حضرت خضر عَلَیْہِ السَّلام : ’’مَا ا تَّخَذَ اﷲُ وَلِیًّا کَانَ اَوْ یَکُوْنُ اِلاَّوَہُوَ مُتَاَ دِّبٌ مَعَـہٗ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃ ۔‘‘
[5] یعنی حضرت ابو عَمر و عثمان صریفینی و ابو محمد عبدالحق حریمی کہ ہر دوازاولیائِ معاصرینِ حضور سیّدنا بودہ اندرَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ وَعَنْہُمْ ۔۱۲
<!--nextpage-->
محمد مظہرِ کامل ہے حق کی شانِ عزّت کا
محمد مظہرِ کامل ہے حق کی شانِ عزّت کا
نظر آتا ہے اِس کثرت میں کچھ انداز وحدت کا
یہی ہے اصل عالم مادّہ ایجادِ خلقت کا
یہاں وحدت میں برپا ہے عجب ہنگامہ کثرت کا
گدا بھی منتظر ہے خلد میں نیکوں کی دعوت کا
خدا دِن خیر سے لائے سخی کے گھر ضیافت کا
نہ رکھی گل کے جوشِ حسن نے گلشن میں جَا باقی
چٹکتا پھر کہاں غنچہ کوئی باغِ رسالت کا
بڑھا یہ سِلسلہ رحمت کا دَورِ زلفِ والا میں
تسلسل کالے کوسوں رہ گیا عِصیاں کی ظلمت کا
صَفِ مَاتَم اُٹھے ، خالی ہوزِنداں، ٹوٹیں زَنجیریں
گنہگارو! چلو مولیٰ نے دَر کھولا ہے جنت کا
سکھایا ہے یہ کس گستاخ نے آئینہ کو یارب
نَظَّارہ رُوئے جاناں کا بہانہ کر کے حیرت کا
اِدھر ُامّت کی حسرت پر اُدھر خالق کی رحمت پر
نِرالا طَور ہوگا گردشِ چشم شفاعَت کا
بڑھیں اِس دَرجہ موجیں کثرتِ اَفضالِ والا کی
کنارہ مل گیا اس نہر سے دریائے وَحدت کا
خَمِ زُلفِ نبی ساجد ہے محرابِ دو اَبرو میں
کہ یارب تو ہی والی ہے سِیہ کارانِ اُمّت کا
مدد اے جوشِشِ گِریہ بہا دے کوہ اور صحرا
نظَر آ جائے جلوہ بے حجاب اس پاک تُربت کا
ہوئے کَمخوابیَ ہِجراں میں ساتوں پردے کمخوابی
تصور خوب باندھا آنکھوں نے اَستارِ تُربت کا
یقیں ہے وَقْتِ جلوہ لغزشیں پائے نگہ پائے
ملے جوشِ صَفائے جسم سے پابوس حضرت کا
یہاں چھڑکا نمَک وَاں مَرْہمِ کافور ہاتھ آیا
لِ زَخمی نمک پَروَردَہ ہے کس کی مَلاحَت کا
در منقبت حضور غوث اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعالٰی عَنْہُ
<!--nextpage-->
بندہ قادر کا بھی قادر بھی ہے عبدالقادر
بندہ قادر کا بھی قادر بھی ہے عبدالقادر
سرِّ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبدالقادر
مفتِی شرع بھی ہے قاضی مِلّت بھی ہے
علمِ اَسرار سے ماہر بھی ہے عبدالقادر
منبعِ فیض بھی ہے مجمعِ افضال بھی ہے
مہر عرفَاں کا منور بھی ہے عبدالقادر
قطب ابدال بھی ہے محورِ ارشاد بھی ہے
مرکزِ دائرئہ سِرّ بھی ہے عبدالقادر
سلکِ عرفاں کی ضیا ہے یہی دُرِّمختار
فخرِ اَشباہ و نظائر بھی ہے عبدالقادر
اس کے فرمان ہیں سب شارحِ حکمِ شارع
مظہرِ ناہی و آمر بھی ہے عبدالقادر
ذی تَصَرُّف بھی ہے ماذون بھی مختار بھی ہے
کارِ عالم کا مُدَبِّر بھی ہے عبدالقادر
رشکِ بُلبل ہے رضاؔ لالہ صَد داغ بھی ہے
آپ کا واصف و ذاکر بھی ہے عبدا القادر
<!--nextpage-->
ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا ہے ہمارا
ہم خاک ہیں اور خاک ہی مَاوا ہے ہمارا
خاکی تو وہ آدم جَد اَعلیٰ ہے ہمارا
اللّٰہ ہمیں خاک کرے اپنی طلب میں
یہ خاک تو سرکار سے تمغا ہے ہمارا
جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سیِّد عالم
اُس خاک پہ قرباں دلِ شیدا ہے ہمارا
خم ہو گئی پشتِ فلک اس طعنِ زَمیں سے
سن ہم پہ مَدینہ ہے وہ رتبہ ہے ہمارا
اس نے لقبِ خاک شہنشاہ سے پایا
جو حیدرِ کرّار کہ مولیٰ ہے ہمارا
اے مدّعیو! خاک کو تم خاک نہ سمجھے
اس خاک میں مدفوں شہِ بطحا ہے ہمارا
ہے خاک سے تعمیر مزارِ شہِ کونین
معمور اِسی خاک سے قبلہ ہے ہمارا
ہم خاک اڑائیں گے جو وہ خاک نہ پائی
باد رضاؔ جس پہ مدینہ ہے ہمارا
<!--nextpage-->
غم ہو گئے بے شُمار آقا
غم ہو گئے بے شمار آقا
بندہ تیرے نثار آقا
ِبگڑا جاتا ہے کھیل میرا
آقا آقا سنوار آقا
منجدھار پہ آ کے ناؤ ٹوٹی
دے ہاتھ کہ ہُوں میں پار آقا
ٹوٹی جاتی ہے پیٹھ میری
لِلّٰہ یہ بوجھ اُتار آقا
ہلکا ہے اگر ہمارا پلّہ
بھاری ہے تِرا وقار آقا
مجبور ہیں ہم تو فِکر کیا ہے
تم کو تو ہے اِختیار آقا
میں دُور ہوں تم تو ہو مِرے پاس
سُن لو میری پکار آقا
مجھ سا کوئی غمزدہ نہ ہوگا
تم سا نہیں غم گُسار آقا
گرداب میں پڑ گئی ہے کشتی
ڈُوبا ڈُوبا، اُتار آقا
تُم وہ کہ کرم کو ناز تم سے
میں وہ کہ بدی کو عار آقا
پھر منھ نہ پڑے کبھی خزاں کا
دے دے ایسی بہار آقا
<!--nextpage-->