امام احمد رضا کی منفرد ردیفیں۔ ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی

امام احمد رضا کی منفرد ردیفیں

پابند نظم کے علاوہ اردو کے مروجہ اصناف سخن میں قافیہ لازمی ہے لیکن ردیف کا لانا لازمی نہیں تاہم ردیف کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اردو کے بڑے شعرا مثلاً میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ وغیرہ نے اپنی ردیفوں کے ذریعے اپنے شعری اسلوب کے متنو ع پہلوئوں کا نظارہ کرایا ہے اور ردیفوں ہی کے توسط سے اشعار کو جہانِ معنی کا سیر کرایا ہے اور خود ردیفوں کو بھی معنی کی نئی جہات دی ہیں۔

ردیف کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ جس نظم میں اس کا التزام ہوتا ہے، اس نظم کے ہر شعر میں پنہاں مضمون کی ادائیگی ردیف پر ہی منحصر ہوتی ہے اور ایسے ہی موقع پر شاعر کی صلاحیت اور اس کے اسلوب کی خوبی کا پتا چلتا ہے۔ ردیفیں مختصر اور طویل دونوں طرح کی ہوتی ہیں اور یہ شاعر کی شعری حرکیت پر منحصر ہے کہ وہ کب ایک لفظی ردیف سے شعر کو بلاغت اور نزاکت فکر کا نمونہ بنا دیتا ہے یا طویل ردیف کا سہارا لے کر معنویت کی تہ داری کا نمونہ پیش کرتا ہے۔

امام احمد رضا نے جہاں مشکل اور تنگ قوافی کے باوجود شعری زمین کو پانی کر دیا ہے، وہیں مشکل اور آسان نیز مختصر اور طویل ہر طرح کی ردیفوں کو برت کر سخت زمینوں میں اشعار کے رنگا رنگ پھول کھلائے ہیں۔

امام احمد رضا کے ردیفوں کی الگ الگ خوبیاں ہیں۔ کوئی کوئی ردیف بجائے خود موضوع بن گئی ہے۔ مثلاً ’’نور کا، عرب، عارض، گیسو، ہاتھ میں، ایڑیاں، تم پہ کروروں درود، پہ لاکھوں سلام، ہمارا نبی‘‘ وغیرہ کی ردیفیں۔

ردیف ’’نور کا‘‘ کی وجہ سے پوری غزل ’’قصیدۂ نور‘‘ کے نام سے موسوم ہو گئی ہے۔ اسی طرح ردیف ’’تم پہ کروروں درود‘‘ ، ردیف ’’پہ لاکھوں سلام‘‘ کی وجہ سے یہ دونوں منظومات ’’قصیدۂ درودیہ‘‘ اور ’’قصیدۂ سلامیہ‘‘ کے نام سے شہرت پا گئے۔ ردیف ’’عرب، گیسو، عارض‘‘ وغیرہ کو موضوع بنا کر انھیں پر امام احمد رضا نے بھانت بھانت کے حسین و بلیغ شعر نکالے ہیں اور ہر شعر کے ساتھ ہر ردیف کو بھی معنویت کا پیکر بنا دیا ہے۔

قصیدۂ سلامیہ اور قصیدۂ درودیہ پر تو علما، ناقدین ادب اور شارحین کلام رضاؔ نے بہت کچھ لکھا ہے لہٰذا ان منظومات کی ردیفوں پر نیز ردیف ’’ہمارا نبی‘‘ پر کسی جائزے یا مزید تبصرہ کی ضرورت نہیں البتہ دیگر موضوعاتی ردیفوں اور ان کے علاوہ چند دوسری ردیفوں کے بارے میں کچھ عرض کیا جائے گا۔

(۱) ردیف ’’عرب‘‘: اس ردیف پر امام احمد رضا کی دو نعتیں ہیں۔

پہلی نعت کا مطلع ہے:

تاب مرات سحر گرد بیابان عرب

غازہ روئے قمر دودِ چراغان عرب

زیر نظر نعت میں عرب کے بیاباں کے گرد، چراغوں کے دھوئیں، چمنستاں کی بہار، گل و ریحان، خار، برسات وغیرہ کا بہت ہی والہانہ انداز میں حسین بیان کیا گیا ہے۔

اس نعت کے مندرجہ ذیل دو اشعار خصوصیت کے ساتھ قابل توجہ ہیں:

عرش سے مژدۂ بلقیس شفاعت لایا

طائر سدرہ نشیں ، مرغ سلیمان عرب

کوچہ کوچہ میں مہکتی ہے یاں بوئے قمیص

یوسفستاں ہے ہر اک گوشۂ کنعان عرب

دونوں اشعار میں تراکیب کی ندرت و جمال، استعارہ سازی کا کمال اور تلمیح کی رعنائی قابل دید ہیں، ’’یوسفستان‘‘ کی ترکیب تو آپ اپنی مثال ہے۔ اس ردیف ’’عرب‘‘ سے دوسری نعت کا مطلع ہے:

پھر اٹھا ولولۂ یاد مغیلان عرب

پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب

زیر نظر نعت میں امام احمد رضا نے عرب کی مقدس و محترم زمین کی یاد میں اپنی بے قراری اور وہاں سے دوری پر اپنے دکھ درد کا بہت ہی والہانہ انداز میں بیان پیش کیا ہے اور یہ محض شاعری نہیں بلکہ وارداتِ قلبی کو شعری پیکر میں ڈھالا گیا ہے۔

اس نعت میں عرب کی شان اور عظمت و تقدیس بلکہ جانِ جہان و جانِ ایمان حضور نبی ذی شان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے جس وارفتگی کے ساتھ امام احمد رضا نے وابستگی کا اظہار کیا ہے اس میں ردیف ’’عرب‘‘ نے حسن بھر دیا ہے اور ہر ہر شعر کو معانی کے امصارِ حسین کی سیر کرائی ہے۔

(۲) ردیف ’’عارض‘‘: یہ ردیف بہ ذات خود نعت کا موضوع ہے۔ عارض ہی کی مناسبت سے امام احمد رضا نے ایک سے بڑھ کر ایک نازک، حسین، لطیف، پرفکر اور بلیغ شعر نکالے ہیں اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے عارض مبارک کے حسین و تاب ناک جلوے دکھائے ہیں۔ مطلع ہے:

نارِ دوزخ کو چمن کر دے بہار عارض

ظلمت حشر کو دن کر دے نہار عارض

نزاکت فکر پر مبنی یہ شعر دیکھیے:

جیسے قرآں ہے ورد اس گل محبوبی کا

یوں ہی قرآں کا وظیفہ ہے وقار عارض

اب مندرجہ ذیل شعر میں تشبیہ کی تازہ کاری، صنعت لف و نشر غیر مرتب کا حسن، رنگ و روشنی کا تصور اور امیجری کا کمال دیکھیے:

مشک بو زلف سے رخ،چہرہ سے بالوں میں شعاع

معجزہ ہے حلب زلف و تتارِ عارض

(۳) ردیف ’’گیسو‘‘: یہ ردیف بھی بہ ذات خود نعت پاک کا موضوع ہے۔ زیر نظر نعت ایک شاہ کار نعتیہ غزل ہے۔ جان جاناں و جانِ جہاناں شہ لولاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گیسوئے والیل کی جناب رضاؔ نے نزاکت خیالات و معانی اور والہانہ محبت سے متنوع انداز میں توصیف کی ہے :

چمن طیبہ میں سنبل جو سنوارے گیسو

حور بڑھ کر شکن ناز پہ وارے گیسو

ہم سیاہ کاروں پہ یا رب تپش محشر میں

سایہ افگن ہوں ترے پیارے کے پیارے گیسو

سوکھے دھانوں پہ ہمارے بھی کرم ہو جائے

چھائے رحمت کی گھٹا بن کے تمھارے گیسو

یہ زمین ردیف کی ثقالت کی وجہ سے ایسی بنجر ہے کہ اس میں رنگ برنگ کے اشعار کے پھول کھلانا ممکن نہیں! اس کے باوجود بھی حضرت رضاؔ نے اپنی شعری حرکیت اور جذبہ کے التہاب سے اس زمین میں بھی اشعار کے شگفتہ پھول کھلائے ہیں:

دیکھو قرآں میں شب قدر ہے تا مطلع فجر

یعنی نزدیک ہیں عارض کے وہ پیارے گیسو

بھینی خوش بو سے مہک جاتی ہیں گلیاں واللہ

کیسے پھولوں میں بسائے ہیں تمھارے گیسو

(۴) ردیف ’’ایڑیاں‘‘: یہ ردیف بھی خود بہ خود نعت کا موضوع بن گئی ہے۔ رب عظیم کے حبیب اکبر اور اپنے نام دار آقا علیہ الصلاۃ و السلام کی ایڑیوں کی تعریف امام احمد رضا نے متنوع انداز میں کی ہے۔ سرکار ابد قرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایڑیوں کو بھی آپ نے شمس و قمر کی عارض سے تشبیہ دی ہے۔ ایڑیوں میں شامل تلوئوں، پنجوں اور ناخنوں کو چاند، سورج اور ہلال سے تشبیہ دی ہے اور ایڑیوں کو دو ستارے کہا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو:

دو قمر ، دو پنجۂ خور ، دو ستارے ، دس ہلال

ان کے تلوے ، پنجے ، ناخن ، پائے اطہر ایڑیاں

حسن تلمیح کے ساتھ دو بلیغ اشعار اور بھی دیکھیے:

ہائے اس پتھر سے اس سینے کی قسمت پھوڑیے

بے تکلف جس کے دل میں کریں گھر ایڑیاں

چرخ پر چڑھتے ہی چاندی میں سیاہی آ گئی

کر چکی ہیں بدر کو ٹکسال باہر ایڑیاں

دل میں گھر کرنا اور ٹکسال باہر ہونا محاورے ہیں۔ پہلے شعر میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس معجزہ کی جانب اشارہ ہے کہ پتھر پر آپ پائے اقدس رکھتے تھے تو وہ موم ہو جاتا تھا۔

(۵) ردیف ’’ہاتھ میں‘‘: اب تک پیش کی گئی تمام ردیفوں سے یہ ردیف زیادہ مشکل ہے لیکن اسے بھی امام احمد رضا نے اپنی شعری حرکیت اور جذبے کے التہاب سے پانی کر دیا ہے۔ مطلع ملاحظہ کیجیے:

ہے لب عیسیٰ سے جاں بخشی نرالی ہاتھ میں

سنگ ریزے پاتے ہیں شیریں مقالی ہاتھ میں

ردیف ’’ہاتھ میں‘‘ شیریں مقالی باندھنا جناب رضاؔ کا کمال فن ہے۔ ایسی مثال اردو کی کسی بھی نوع کی شاعری میں نہیں ملتی ہے۔ اس مطلع میں امام احمد رضا نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا وہ معجزہ پیش کیا ہے جب کنکروں نے ابوجہل کے ہاتھ میں آپ کا کلمہ پڑھنا شروع کر دیا تھا۔

اس ردیف کے حوالے سے امام احمد رضا نے مختار کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سخاوت، کریمی، جمالی و جلالی شان، شفاعت وغیرہ کے حقیقت پسندانہ بیان کے ساتھ اور پھر اس حوالے سے سرکار ابد قرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے صحابۂ کرام کے والہانہ عشق و عقیدت اور وفا کیشی، حسنین کریمین کی دست گیری نیز اپنی وارفتگی محبت کا بھی اظہار کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے اور دیکھیے کہ حضرت رضاؔ نے اس ردیف کے توسط سے رمزیت میں وضاحت، وضاحت میں رمزیت اور تیقن و استدلال کے جلوے دکھائے ہیں اور اس طرح اپنے پیرایۂ بیان کے متنوع زاویے بھی اجاگر کیے ہیں:

کیا لکیروں میں یداللہ خط سروآسا لکھا

راہ یوں راز لکھنے کی نکالی ہاتھ میں

ابر نیساں مومنوں کو ، تیغ عریاں کفر پر

جمع ہیں شانِ جمالی و جلالی ہاتھ میں

مالک کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں

دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں

ردیف ’’ہاتھ میں‘‘ کے ساتھ لایزالی، نکالی، جمالی، جلالی، بے مثالی، مقالی وغیرہ قوافی باندھ کر حسین و بلیغ اور صداقت سے پر اشعار پیش کرنا خامۂ رضاؔ کا کمال ہے۔

(۶) ردیف ’’واہ واہ‘‘: یعنی سبحان اللہ، الحمدللہ کے تحسینی الفاظ اور جب ’’واہ واہ‘‘ کے ساتھ مدح و ثنا کی جائے تو ظاہر ہے کہ ممدوح کی عظمت اور بے مثالی وغیرہ کا بیان کیا جائے گا اور جب ممدوح ایسا عظیم و بے نظیر ہو کہ بس ’’بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘تو ظاہر ہے واہ واہ کے ساتھ ہر ادائے بے مثالی پر سبحان اللہ کہہ کر لوٹ جانے، فدا ہو جانے کا وہ حسین انداز سامنے آئے گا جو شاعر کے طرزِ ادا کی طرح داری کا اعلیٰ نمونہ ہوگا۔

واہ واہ بہت ہی شگفتہ ردیف ہے اور ’’ہ‘‘ کی ہکاریت والے لفظ سے خود صوتی آہنگ نمایاں ہے اور اگر اس کے ساتھ مسلسل اور سفیری آوازوں والے یا دوسرے مصوتوں والے قوافی بھی پیوست ہو جاتے ہیں تو آہنگ کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔مطلع ملاحظہ ہو:

کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمھاری واہ واہ

قرض لیتی ہے گنہ پرہیز گاری واہ واہ

زیر نظر نعت میں حضرت رضاؔ نے سرکار ابد قرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شفاعت، حسن بے مثال، امت سے محبت، سخاوت، مدینہ امینہ کی بہار، روضۂ اقدس کے نور وغیرہ کا بہت ہی والہانہ اور شاعرانہ بیان کیا ہے۔ آپ نے نفس کا محاسبا بھی کیا ہے۔ زیر نظر نعت کے ہر شعر کے حسن و خوبی پر قاری واہ واہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔چند اشعار دیکھیے:

خامۂ قدرت کا حسن دست کاری واہ واہ

کیا ہی تصویر اپنے پیارے کی سنواری واہ واہ

انگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر

ندیاں پنجاب رحمت کی ہیں جاری واہ واہ

نور کی خیرات لینے دوڑتے ہیں مہر و ماہ

اٹھتی ہے کس شان سے گرد سواری واہ واہ

کیا مدینہ سے صبا آئی کہ پھولوں میں ہے آج

کچھ نئی بو بھینی بھینی پیاری پیاری واہ واہ

اس طرف روضہ کا نور ، اس سمت منبر کی بہار

بیچ میں جنت کی پیاری پیاری کیاری واہ واہ

مندرجہ بالا اشعار میں صوتی آہنگ، شگفتگی، طراوت وغیرہ ظاہر ہیں اور محاکات، استعارہ بالکنایہ، اور تلمیح وغیرہ کی خوب صورتی بھی عیاں ہے۔

(۷) ردیف ’’یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں‘‘: ردیف طویل ہے۔امام احمد رضا نے اور بھی طویل ردیفوں جیسے ’’تم پہ کروروں درود‘‘ ،’’پہ لاکھوں سلام‘‘ وغیرہ کو برتا ہے۔ آپ نے طویل ردیفوں کو نئی معنویت دی ہے۔ زیر نظر ردیف نے نعت پاک کو ایک مکمل تجربے میں بدل دیا ہے۔ یہ نعت الگ الگ شعروں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک وحدت ایک اکائی بن گئی ہے۔ یہ ردیف استفہام کے پیراہن میں ملبوس استفہام کی مختلف نوعیتوں،تشکیک، تجسس، تیقن اور استدلال وغیرہ کے جلوے پیش کرتی ہے۔ امام احمد رضا کے لب و لہجہ کا یہ انداز اس ردیف کے برتائو سے ان کی انفرادیت کا اظہار کرتا ہے، اور اس سے ان کی شعری عظمت واضح ہو جاتی ہے۔ نعت پاک کا مطلع ہے:

رخ دن ہے یا مہر سما ، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

شب زلف ہے یا مشک ختا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

حضرت امام احمد رضا، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رخ پاک کی توصیف کرتے ہوئے سوچتے ہیں کہ اسے دن کہیں یا مہر سما۔ اسی طرح زلف معنبر کی مدح میں غور کرتے ہیں کہ اسے شب کہیں یا مشک ختا۔ اس طرح تشکیک میں مبتلا ہوکر خود کو لاجواب کر دیتے ہیں کہ جانِ جہاں علیہ السلام کے لاجواب رخ و زلف کے لیے کوئی بھی تشبیہ درست ہی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ان کا جواب ہے۔

رفعنا لک ذکرک والے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان عظمت کے اظہار کا انداز مندرجہ ذیل اشعار میں دیکھیے:

ممکن میں یہ قدرت کہاں ، واجب میں عبدیت کہاں

حیراں ہوں یہ بھی ہے خطا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

حق یہ کہ ہیں عبد الہ اور عالم امکاں کے شاہ

برزخ ہیں وہ سِرّ خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

پہلے شعر میں رضاؔ خود سے سوال کرتے ہیں اور گرداب تجسس سے نکل کر ساحل تیقن پر آن کھڑے ہوتے ہیں جو دوسرے سے واضح ہے اور ردیف ’’یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں‘‘ کا جو سلسلہ شعر اول سے شروع ہوتا ہے وہ شعر دوم میں پہنچ کر خود ’’یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں‘‘ کو ’’یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں‘‘ کر کے تیقن کا جلوہ پیش کر دیتا ہے۔

اب ’’یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں‘‘ کے پردۂ تشکیک میں حضرت رضاؔ ردیف کو جہانِ معنی کی سیر کراتے ہوئے استدلال اور تیقن کے روپ میں پیش فرماتے ہیں :

خورشید تھا کس زور پر ، کیا بڑھ کے چمکا تھا قمر

بے پردہ جب وہ رخ ہوا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

ڈر تھا کہ عصیاں کی سزا اب ہوگی یا روز جزا

دی ان کی رحمت نے صدا یہ بھی نہیں ، وہ بھی نہیں

(۸) ردیف ’’یوں‘‘: یوں سے یہ مطلب بہ دیہی ہے کہ یہ کیوں کا جواب ہے۔ کیوں میں استفہام ہے اور یوں میں تیقن اور اس کے لیے استدلال ضروری ہے۔ امام احمد رضاؔ نے ’’یوں‘‘ کی ردیف میں جو نعت پاک کہی ہے اسی ردیف میں غالبؔ کی ایک غزل ہے۔ یہاں غالبؔ اور رضاؔ کا کوئی موازنہ مقصود نہیں بلکہ بتلانا صرف یہ ہے کہ جس ردیف یا جن ردیفوں کو برت کر غالبؔ یا اور دوسرے شعرا نے اپنے طرز ادا کے نئے جلوے دکھائے ہیں اور اپنی شاعرانہ عظمت تسلیم کرائی ہے، حضرت رضاؔ نے بھی انھیں ردیفوں کو برت کر اپنے اسلوب کی انفرادیت ظاہر کی ہے:

پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفی کہ یوں

کیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں

اس مطلع میں امام احمد رضاؔ نے معنی آفرینی کی انتہا کر دی ہے۔ مصرع اولیٰ میں استفہامیہ انداز نیز یوں کی تکرار سے رمزیت میں وضاحت اور وضاحت میں رمزیت کی جو حسین اور شعری فضا قائم کی ہے اس نے بلا کی معنی آفرینی برقرار رکھی ہے اور یہی شعری حسن ہے جس کا کمال ردیف یوں کے ساتھ جناب رضاؔ نے پیش فرمایا ہے۔ اسی زمین میں غالبؔ کا یہ شعر دیکھیے:

غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھاکہ یوں

بوسے کو پوچھتا ہوں منھ سے مجھے بتا کہ یوں

غالبؔ کی مضمون آفرینی میں کوئی کلام نہیں لیکن فحش بیانی بہرحال موجود ہے حالاںکہ غزل میں اس کو مستحسن قرار دیا جاتا ہے۔ اب تطہیر کے پیراہن حریری میں ملبوس امام احمد رضاؔ کا یہ شعر دیکھیے اور معیار و منہاج کے پیش نظر فیصلہ دیجیے:

میں نے کہا کہ جلوۂ اصل میں کس طرح گمیں

صبح نے نور مہر میں مٹ کے دکھا دیا کہ یوں

تلمیح کے وقار، مضمون آفرینی کی بہار، والہانہ بیانی اور شیفتگی کی جلوہ سامانی کے ساتھ ردیف ’’یوں‘‘ کو بخشی ہوئی معنویت مندرجہ ذیل اشعار میں ملاحظہ کیجیے:

قصر دنیٰ کے راز میں عقلیں تو گم ہیں جیسی ہیں

روح قدس سے پوچھیے تم نے بھی کچھ سنا کہ یوں

دل کو دے نور و داغ عشق پھر میں فدا دو نیم کر

مانا ہے سن کے شقِ ماہ آنکھوں سے اب دکھا کہ یوں

دل کو ہے فکر کس طرح مردے جلاتے ہیں حضور

اے میں فدا لگا کر ایک ٹھوکر اسے بتا کہ یوں

استفہامیہ انداز والی ردیفیں

(۹) (الف) ردیف ’’کیوں‘‘: اس ردیف میںا مام احمد رضا کی دو نعتیہ غزلیں ہیں۔ دونوں کے قوافی الگ الگ ہیں۔ غالبؔ اور داغؔ کی بھی اسی زمین میں ردیف ’’کیوں‘‘ کے ساتھ غزلیں ہیں۔ حضرت رضاؔ کی پہلی نعت کامطلع ہے:

پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں

دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں

کالی داس گپتا رضاؔ نے غالبؔ اور رضاؔ کے موازنہ میں دونوں کے اشعار پیش کیے ہیں:

ہاں وہ نہیں خدا پرست جائو وہ بے وفا سہی

جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں

(غالبؔ)

پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں

دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں

(رضاؔ)

اس موازنہ میں کالی داس گپتا لکھتے ہیں: نعت اور غزل کو یک جا کرنا اس کو کہتے ہیں۔

سہوو سراغ

کالی داس گپتا کی تحریر اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ معانی کے ساتھ طرز ادا کا بانک پن رضاؔ کے ہاں بہ درجۂ اتم موجود ہے۔ اس لیے کہ نعت میں ایسا غزلیہ انداز پیش کرنا کہ تقدیس نعت متاثر نہ ہو فن کاری کا کمال ہے۔

علامہ شمسؔ بریلوی نے بھی اسی زمین کے غالبؔ اور رضاؔ کے ایک شعر کا موازنہ کیا ہے۔ علامہ موصوف رضاؔ کا یہ شعر:

یاد حضور کی قسم ، غفلت عیش ہے ستم

خوب ہیں قید غم میں ہم کوئی ہمیں چھڑائے کیوں

لکھ کر کہتے ہیں کہ اس رجائیت کے مقابل ذرا غالبؔ کی قنوطیت ملاحظہ ہو:

اصل حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

علامہ شمسؔ ارشاد فرماتے ہیں: ’’اللہ اللہ! حضرت رضاؔ قدس سرہٗ نے قید غم کو کس طرح عزیز ثابت کیا ہے اور کیا ہی لطیف معنی پیدا کیے ہیں۔‘‘

امام احمد رضاؔ نے استفہام کی مختلف نوعیتوں ’’تجسس، تشکیک، تیقن‘‘ وغیرہ کے انداز پیش فرما کر ردیف ’’کیوں‘‘ کوکئی معنویت سے ہم کنار کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

گرد ملال اگر دھلے ، دل کی کلی اگر کھلے

برق سے آنکھ کیوں جلے ، رونے پہ مسکرائے کیوں

جانِ سفر نصیب کو کس نے کہا مزے سے سو

کھٹکا اگر سحر کا ہو ، شام سے موت آئے کیوں

جان ہے عشق مصطفی ، روز فزوں کرے خدا

جس کو ہو درد کا مزہ ، ناز دوا اٹھائے کیوں

یادِ وطن ستم کیا ، دشت حرم سے لائی کیوں

بیٹھے بٹھائے بدنصیب سر پہ بلا اٹھائی کیوں

مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کیجیے کہ جناب رضاؔ نے ردیف کو کس طرح نئی معنویت سے ہم کنار کیا ہے اور فدائیت کے شباب کو ضم کر دیا ہے:

نام مدینہ لے دیا چلنے لگی نسیم خلد

سوزش غم کو ہم نے بھی کیسی ہوا بتائی کیوں

کس کی نگاہ کی حیا پھرتی ہے میری آنکھ میں

نرگس مست ناز نے مجھ سے نظر چرائی کیوں

ہو نہ ہو آج کچھ مرا ذکر حضور میں ہوا

ورنہ مری طرف خوشی دیکھ کے مسکرائی کیوں

(ب) ردیف ـ’’کیا ہے‘‘: تحیر و استعجاب شاعر کے غورو فکر کا نتیجہ ہے لیکن امام احمد رضا کا تحیر و استعجاب اپنے آقا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے تعلق سے کسی تشکیک میں مبتلا نہیں کرتا، بلکہ تیقن عطا کرتا ہے اور یہ دھوپ چھائوں رمزیت میں وضاحت اور وضاحت میں رمزیت کے جلوے دکھاتا ہے۔ نعت کا مطلع دیکھیے:

کس کے جلوے کی جھلک ہے ، یہ اجالا کیا ہے

ہر طرف دیدۂ حیرت زدہ تکتا کیا ہے

یہ مطلع آقائے نام دار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بے مثالی کا حسین اظہار ہے۔

ساری مخلوق خداوندی کو معلوم ہے کہ یہ اجالا کس کا برپا کیا ہوا ہے۔ رضاؔ اس استعجاب سے آقا کی بے نظیری دیکھ کر واہ واہ کر رہے ہیں اور دنیا والوں کو ان کی یکتائی دکھا رہے ہیں۔

مندرجہ ذیل شعر ملاحظہ کیجیے۔ استفہام کے پردے میں تیقن کا بھرپور نظارہ کراتے ہیں:

مانگ من مانتی منھ مانگی مرادیں لے گا

نہ یہاں ’’نا‘‘ ہے نہ منگتا سے یہ کہنا ’’ کیا ہے‘‘

حضرت رضاؔ کے ہاں قنوطیت کا گزر ہی نہیں۔ یہاں استفہامیہ کلمات یاس و تاسف کی غمازی نہیں کرتے بلکہ ان سے رجائیت اور سرخوشی کا اظہار ہوتا ہے۔اشعار دیکھیے:

زاہد ان کا میں گنہ گار ، وہ میرے شافع

اتنی نسبت مجھے کیا کم ہے ، تو سمجھا کیا ہے

لو وہ آیا مِرا حامی مِرا غم خوار امم

آ گئی جاں تن بے جاں میں یہ آنا کیا ہے

(ج) ردیف ’’کیا ہونا ہے‘‘: اس ردیف کے تحت حضرت رضاؔ نے ۳۸؍ اشعار پر مشتمل ایک نعت پاک کہی ہے اور ردیف کو معانی کی نئی نئی جہتوں سے آشنا کیا ہے۔ یہ نعت بندش کی چستی، زبان کی گھلاوٹ اور فصاحت و بلاغت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔

جناب رضاؔ نے اپنی بے عملی، نفس کی سرکشی، قلبی اضطرابات و کیفیات وغیرہ کو عنوان بنا کر ردیف کو اس انداز میں برتا ہے کہ وہ معنویت کے پرت کھولتی چلی جاتی ہے۔ اس طرح ہر شعر بلندیِ فکر کا پیکر بنتا چلا جاتا ہے۔ چند اشعار دیکھیے:

ہم کو بِد کر وہی کرنا جس سے

دوست بے زار ہے کیا ہونا ہے

میٹھے شربت دے مسیحا جب بھی

ضد ہے ، انکار ہے ، کیا ہونا ہے

ارے او مجرم بے پروا دیکھ

سر پہ تلوار ہے کیا ہونا ہے

پار جانا ہے نہیں ملتی نائو

زور پر دھار ہے کیا ہونا ہے

ہر شعر میں ایک سوال ہے۔ چند اشعار علامتی رنگ بھی لیے ہوئے ہیں۔ مثلاً شعر نمبر ۴ میں ’’نائو‘‘ کو بہ طور علامت پیش کیا گیا ہے۔ ایک شعر اور دیکھیے جس میں ’’آگ‘‘ کو عشق کی علامت بنایا ہے:

بیچ میں آگ کا دریا حائل

قصد اس پار ہے کیا ہونا ہے

ردیف ’’کیا ہونا ہے‘‘ سے پیدا ہر بے چینی اور پریشانی کا جواب حضرت رضاؔ مقطع میں اس طرح دیتے ہیں:

کیوں رضاؔ کڑھتے ہو ، ہنستے اٹھو

جب وہ غفّار ہے کیا ہونا ہے

(۱۰) ردیف ’’نور کا‘‘: اس ردیف میں نور نے ’’قصیدۂ نور‘‘ کو معنی کا جہانِ نور بنا دیا ہے اور نور ایک علامتی نشان کے ساتھ اس قصیدہ (نعت پاک) میں جلوہ گر ہوا ہے۔ قرآن و حدیث اور لغت و زبان و محاورہ کی روشنی میں نور کے مندرجہ ذیل معانی سامنے آتے ہیں:

’’روشنی، پاکیزگی، طمانیت، حسن، سچائی، ایمان، علم و معرفت، طاقت و توانائی، جلال و عظمت، اصل و مادہ، خوشی و محبت، نعمت و رحمت اور وسیلہ و فیض‘‘ وغیرہ۔

اب مندرجہ ذیل اشعار میں مندرجہ بالا معانی کا جائزہ لیجیے اور حضرت رضاؔ کے ردیف کے برتائو کے کمال اور ان کی شعری عظمت ملاحظہ کیجیے:

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا

صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا

(روشنی، نور) میل سے کس درجہ ستھرا ہے وہ پتلا نور کا

ہے گلے میں آج تک کورا ہی کرتا نور کا

(پاکیزگی)

ناریوں کا دور تھا دل جل رہا تھا نور کا

تم کو دیکھا ہو گیا ٹھنڈا کلیجا نور کا

(سکون، طمانیت)

شمع دل ، مشکوٰۃ تن ، سینہ زجاجہ نور کا

تیری صورت کے لیے آیا ہے سورہ نور کا


(حسن و جمال)

تاج والے دیکھ کر تیرا عمامہ نور کا

سر جھکاتے ہیں الٰہی ، بول بالا نور کا

(جلال و ہیبت)

صبح کر دی کفر کی سچا تھا مژدہ نور کا

سر جھکا اے کشت کفر ، آتا ہے اہلا نور کا


(اسلام و صداقت)

یہ کتاب کُن میں آیا طرفہ آیہ نور کا

غیر قائل کچھ نہ سمجھا کوئی معنیٰ نور کا

(علم و معرفت)

دیکھ ان کے ہوتے نا زیبا ہے دعویٰ نور کا

مہر لکھ دے یاں کے ذروں کو مچلکا نور کا

(قدرت و قوت)

تاب حسن گرم سے کھل جائیں گے دل کے کنول

نو بہاریں لائے گا گرمی کا جھلکا نور کا

(سرخوشی، محبت)

وصف رخ میں گاتی ہیں حوریں ترانہ نور کا

قدرتی بینوں میں کیا بجتا ہے لہرا نور کا

(سرخوشی، محبت)

یہ جو مہر و مہ پہ ہے اطلاق آتا نور کا

بھیک تیرے نام کی ہے استعارہ نور کا

(اصل، مادّہ)

جو گدا دیکھو لیے جاتا ہے توڑا نور کا

نور کی سرکار ہے کیا اس میں توڑا نور کا

(نعمت، رحمت)

میں گدا تو بادشاہ بھر دے پیالہ نور کا

نور دن دونا ترا دے ڈال صدقہ نور کا

(رحمت، نعمت)

ذرے مہر قدس تک تیرے توسط سے گئے

حدّ اوسط نے کیا صغریٰ کو کبریٰ نور کا

(وسیلہ، فیض)

(۱۱) ردیف ’’پھول‘‘: حضرت رضاؔ نے پھول کے متعدد معانی نکالے ہیں۔ مثلاً ہلکا پھلکا، پاک و صاف، گناہ سے مبرا، غرور، اترانا، زیور وغیرہ!

اشعار ملاحظہ کیجیے اور معانی کے گل ہائے رنگا رنگ سے عطر بیزی و شادابی حاصل کیجیے:

سرتا بقدم ہے تن سلطان زمن پھول

لب پھول ، دہن پھول، ذقن پھول،بدن پھول

(پھول، گل)

تنکا بھی ہمارے تو ہلائے نہیں ہلتا

تم چاہو تو ہو جائے ابھی کوہ محن پھول

(ہلکا)

ہوں بار گنہ سے نہ خجل دوش عزیزاں

للہ مِری نعش کر اے جانِ چمن پھول

(ہلکا، گناہ سے پاک)

دل اپنا بھی شیدائی ہے اس ناخن پا کا

اتنا بھی مہِ نو پہ نہ اے چرخ کہن پھول

(غرور کرنا، اترانا)

شب یاد تھی کن دانتوں کی شبنم کہ دم صبح

شوخانِ بہاری کے جڑائو ہیں کرن پھول

(زیور)

اس نعت پاک کے ۱۶؍ اشعار میں رضاؔ نے پھول کو نئے طرز و انداز سے پیش کر کے معانی کے سولہ سنگھار سے نعتیہ غزل کو آراستہ کیا ہے۔

(۱۲) ردیف ’’پھرتے ہیں‘‘: حضرت رضاؔ نے اس ردیف میں سولہ اشعار پر مشتمل نعت کہی ہے اور طرزِ ادا نیز بھانت بھانت کے معانی کے جلوے دکھائے ہیں۔ مطلع اس طرح ہے:

وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں

تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں

اس مطلع کے مصرع اولیٰ میں ’’پھرنا‘‘ سے مراد ہے ’’سیر فرمانا، گل گشت کرنا‘‘ مصرع ثانی میں ’’دن پھرنا‘‘ محاورہ ہے یعنی دن بدلنا، تقدیر سنورنا۔ مزید اشعار دیکھیے:

جو ترے در سے یار پھرتے ہیں

در بدر یوں ہی خوار پھرتے ہیں

مصرع اولیٰ میں ’’پھرتے ہیں‘‘ سے مراد ہے ’’گریز کرنا‘‘ مصرع ثانی میں ’’پھرتے ہیں‘‘ سے مراد ہے ’’مارے مارے پھرنا‘‘:

ہر چراغ مزار پر قدسی

کیسے پروانہ وار پھرتے ہیں

(جان نثار کرنا)

رکھیے جیسے ہیں خانہ زاد ہیں ہم

مول کے عیب دار پھرتے ہیں

(مال کا واپس ہونا)

ہائے غافل وہ کیا جگہ ہے جہاں

پانچ جاتے ہیں چار پھرتے ہیں

(واپس پلٹنا)

بائیں رستے نہ جا مسافر سن

مال ہے راہ مار پھرتے ہیں

(گھات لگائے رہنا)

خلاصۂ کلام

امام احمد رضاؔ نے مختصر اور طویل ردیفوں کو معنویت عطا کر کے اور ان کے توسط سے اپنے طرزِ ادا کے جو مختلف حسین و رنگین جلوے دکھائے ہیں وہ ان کی شعری حرکیت اور شعری عظمت پر دال ہے اور بلاشبہہ و بلامبالغہ یہ کہنا پڑتا ہے :

ملک سخن کی شاہی تم کو رضاؔ مسلّم

جس سمت آ گئے ہو سکے بٹھا دیے ہیں