اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی اعلیٰ باتیں
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کچھ نمایاں خصوصیات:
اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے متعلق ایک لقب میں ہی آپ کے جملہ پہلوؤں کا احاطہ ہو جاتا ہے اور وہ”مُعْجِزۃ من معجزات النبی“ہے، یعنی اعلیٰ حضرت نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہیں۔ایسی جامعیت، علمیت، فقاہت اور دینی خدمت نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیضان کا معجزہ ہی ہو سکتا ہے اور اصل بات بھی یہی ہے کہ وَلی کی کرامت درحقیقت اُس کے نبی کا معجزہ ہوتا ہے اور یوں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات مسلسل ظاہر ہوتے رہیں گے۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ذات، اُن کی خصوصیات اور ان کے کمالات آقا کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیضان کا ایک عظیم شاہکار ہیں ۔
اگر امام اہلسُنَّت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی نمایاں خصوصیات کے حوالے سے بات کی جائے ، تو آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی چار خصوصیات واضح طور پر سامنے آتی ہیں ۔ اُن میں سے تین وہ ہیں کہ جنہیں اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے خود بیان کیا ہے کہ اِس فقیر کی زندگی کی مصروفیت یہ چیزیں ہیں: ایک فقہ حنفی کے مطابق مسلمانوں کی رہنمائی کرنا۔(دنیا بھر سے مسلمان جو فتاویٰ پوچھتے تھے، اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ان کے مسائل کا جواب دیتے تھے اور آپ کی زندگی کا ایک بڑا حصہ اس فتویٰ نویسی اور علمی مشغلے میں گزرا، تو فتویٰ نویسی آپ کی زندگی کا بہت نمایاں پہلو ہے۔ پھر اِسی سے اُن کی تصانیف وجود میں آئیں اور آپ کی تصانیف کی تعدادتقریباً ایک ہزار سے زیادہ ہے۔)
اوردوسری مصروفیت نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت اور ناموس کی حفاظت کرنا ۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تحریرات، تصنیفات، مکتوبات اور مجموعہ اشعار دیکھیں، تو اُن کا اکثر حصہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان کی تشریحات اور تفصیلات کے متعلق اور حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ہونے والے کسی بھی اعتراض اور کلام کا جواب دینے میں اور ناموسِ رسالت کا دفاع کرنے پر مشتمل ہے، لہذا عظمت و ناموسِ رسالت کاتحفظ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی دوسری نمایاں ترین خصوصیت ہے، چنانچہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی زندگی کی ان بڑی مصروفیات کے بارے میں مولانا ظفر الدین بہاری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ تحریر فرماتے ہیں کہ ”ایک مرتبہ رام پور کے نواب کی دعوت پر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اُس کے ہاں تشریف لےگئے ۔ نواب صاحب سے ملاقات کے دوران علامہ عبد الحق خیرآبادی بھی تشریف لے آئے اور انہوں نے اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے پوچھا کہ :بریلی میں آپ کا کیا شغل ہے؟ فرمایا تدریس، افتا،تصنیف۔کس فن میں تصنیف کرتے ہیں؟اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا جس مسئلہ دینیہ میں ضرورت دیکھی اور ردّ ِوہابیہ میں۔“( )
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی تیسری مصروفیت تدریس بیان فرمائی جس کی برکت سے جلیل القدر علماء تیار ہوئے۔ یہ تین باتیں اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے خود بیان فرمائیں کہ فقیر کی مصروفیت ان اُمور سے متعلق ہے ، البتہ اِس کے علاوہ آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی شخصیت کے متعلق مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب امور کی مشغولیت میں آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی یہ نمایاں خوبی سامنے آتی ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کثیر علوم کے جامع ہیں کہ آپ صرف ایک فن کے عالِم نہیں تھے کہ آپ صرف فقہ جانتے ہوں، تو ”فَقِیہ“ ہوں یا حدیث کے ماہر ہوں ، تو ”مُحَدِّث“ ہوں، یا تفسیر پر عبور رکھتے ہوں تو ”مُفَسِّر“ سمجھے جائیں، بلکہ آپ اتنے علوم کے ماہر تھے کہ آپ سے پہلے اور بعد کے ہزاروں مشہور ومعروف علماء میں دیکھا جائے ، تو اتنے علوم کسی ایک ہستی میں مجتمع نظر نہیں آئیں گے، چنانچہ (1)فقہ حنفی کی خدمت (2)عقائدِ اسلامیہ اور ناموس رسالت کی حفاظت اور (3)تدریس اور اس کے ساتھ کثیرعلوم کی جامعیت ۔ یہ نمایاں خصوصیات ہیں، جو اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی سیرت میں ملتی ہیں۔
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی فقاہت اور فقہی خدمات:
فقہ اور شرعی مسائل میں اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی مہارت بالکل منفرد نوعیت کی تھی۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی علمیت اور فقاہت انتہائی اعلیٰ، شاندار اور مسائل میں نظر اِس قدر دَقیق اور جید(بہترین) تھی کہ عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر فقہ میں آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا مرتبہ کتنا بلند تھا، اِس کا اندازہ چند خصوصیات سے لگایا جا سکتا ہے۔
پہلی فقہی خصوصیت:
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی پوری عمر کی فتویٰ نویسی کی مدت تقریباً 55 سال بنتی ہے ، کیونکہ اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے باقاعدہ طور پر پہلا فتویٰ تیرہ سال، دس ماہ اور چار دن کی عمر میں دیا اور آپ کا وصال تقریبا 68 سال کی عمر میں ہوا ۔ اس کے حساب سے آپ کی عمر تقریباً 68 سال بنتی ہے۔تقریباً13 سال کی عمر میں آپ نے فتویٰ دینا شرع کیا اور 68سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوا ، تو تقریباً 55 سال آپ نے فتاویٰ جاری فرمائے، تو وقت، زمانہ اور عرصے کی وسعت کے اعتبار سے بھی آپ کی فقہی مہارت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
دوسری فقہی خصوصیت:
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے فتاوی میں بہت زیادہ وسعت و تنوع ہے کہ یہ فتاوی ، فقہ کے ہر موضوع پر ، دنیا کے کثیر ممالک سے اور مختلف زبانوں میں، مختصر ،متوسط ، مُفَصَّل، آسان اور مشکل ہر طرح کے تھے اورپوچھنے والوں میں عوام و ماہر علماء سب شامل تھے، بلکہ وقت کے بڑے بڑے علماء کی طرف سے آپ کی بارگاہ میں استفتاء پیش ہوتے تھے۔اس سے آپ کی فقہی مہارت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
تیسری فقہی خصوصیت :
تاریخ اسلام میں بڑے بڑےفقہائے کرام اور مفتیانِ کرام گزرے، جنہوں نے فتاوی دیے اور اُن کے فتاویٰ چَھپے (کتابی صورت میں موجود ہیں)اور آج کے زمانے میں بھی موجود ہیں۔یہاں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ فتاوی دو طرح کے ہوتے ہیں:(1) جنہیں اصطلاحی طور پر ”فتاویٰ“ کہا جاتا ہے، جیسے ”مُتُون و شُرُوح “ کی اِصطلاح بھی بولی جاتی ہے کہ ائمہ مذہب کے اقوال پر مشتمل کتابیں ” مُتُون“ کہلاتی ہیں اور ان متون کی تشریح و توضیح پر مشتمل کتابیں ” شُرُوح “ کہلاتی ہیں، جبکہ اِن دونوں قسم کے مسائل کے ساتھ یا ان کے بغیر مزید پیش آمدہ مسائل کے متعلق فقہاء کے جوابات کے مجموعہ پر مشتمل کتابیں ”فتاوی“ کہلاتی ہیں، مثلا ً پچھلے زمانے کے فتاویٰ جیسے فتاویٰ عالَمگیری، فتاویٰ تاتارخانیہ، فتاویٰ قاضی خان اور فتاویٰ بزازیہ وغیرہا۔یہ ہمارے زمانے والے فتاویٰ کی کتابیں نہیں ہیں کہ لوگ پوچھتے تھے اور علماء جواب دیتے تھے ۔
(2)فتاوی کی کتابوں کی دوسری قسم وہ ہے جو آج کل فتاوی کے نام سے لکھی جارہی ہیں، جیسےکسی مفتی سے مسائل پوچھے جاتےہیں اور وہ اُن کے جوابات دیتے ہیں ، یہ سب فتاویٰ جمع ہوتے رہتے ہیں ، پھر فتاویٰ کا ایک مجموعہ بن جاتا ہے اور کسی نام سے چَھپ جاتاہے۔ پاک و ہند میں فقہ حنفی سے تعلق رکھنے والی ایسی کتبِ فتاوی ایک سو سے زائد ہوں گی، لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دنیائے اسلام کی تاریخ میں ایک فرد کے لکھے ہوئے فتاوی کا اتنا بڑا مجموعہ موجود نہیں ہے، جتنا ضخیم الحمد للہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا ”فتاویٰ رضویہ“ ہے ، یعنی جتنے بڑے، مفصل اور کثیر مجلدات پر مشتمل فتاوی آپ نے جاری کیے، پوری دنیائے اسلام میں اتنے فتاویٰ کسی نے جاری نہیں کیے۔ یہ آپ کی فقہی دَسْتَرس اور مہارت کی ایک بہت بڑی نشانی ہے ۔
چوتھی فقہی خصوصیت:
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا مقامِ تَفَقُّہ اس قدر بلند تھا کہ جب بڑے بڑے علماء کسی مسئلےکے حل سے عاجز آجاتے اور مسئلہ حل نہ کر پاتے تو آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی بارگاہ میں وہ سوال پیش ہوتا اور آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اُس کا مُدَلَّل، مُحَقَّق اور حتمی جواب عطا فرماتے، جیسے ایک بڑا مشہور کرنسی نوٹ کا مسئلہ سامنے آیا کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے زمانے میں کرنسی نوٹ کی ایجاد ہوئی تھی اور اس سے پہلے دوسرے سکے چلتے تھے۔ جب یہ نوٹ آئے تو شرعی حیثیت واضح نہ تھی کہ شرعی نقطہ نظر سے اِس کا حکم کیا ہے۔ کیا یہ سونے چاندی کی رسید ہے یا یہ سکوں کی طرح ثمن اصطلاحی ہے۔ بڑے بڑے علماء و فقہاء اس کی شرعی حیثیت کے تعین سے عاجز آگئے ، تو اجلہ علماء و فقہاء کی طرف سے اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے سامنے جب یہ سوال آیا، تو آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس کے جواب میں ایک پورا رسالہ بنام ”کفل الفقیہ الفاھم فی احکام القرطاس والدراھم“تحریر فرمایا ۔ جب وہ رسالہ علماء کے سامنے پیش کیا گیا ، تو سب اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی علمیت و فقاہت پر دَنگ رہ گئے اور اندازہ ہوا کہ فقاہت کسے کہتے ہیں کہ جن باتوں کو انہوں نے پڑھا تو تھا ، لیکن اُن سے استدلال نہیں کر پا رہے تھے، اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اُن ہی چیزوں سے استدلال فرماکر مسئلہ حل کردیا۔ یوں نئے اور پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل آپ کی بارگاہ میں پیش ہوتے تھے اور آپ ان کا حل یوں پیش فرماتے تھے کہ گویا آپ پہلے سے اس معاملے میں تحقیق فرما چکے ہیں۔
یہ(احمد رضا) تو ”امام اعظم ثانی“ معلوم ہوتے ہیں:
مولانا سراج احمد مکھن بیلوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ جو سرائیکی علاقے کے بہت بڑے فقیہ گزرے ہیں ، وہ علم وراثت میں بہت ماہرتھے ، انہیں ذَوِی الاَرْحام کے بارے میں کوئی انتہائی مشکل مسئلہ درپیش تھا اور اہل علم جانتے ہیں کہ ذوی الاَرحام کے مسائل کچھ پیچیدہ ہوتے ہیں، چنانچہ علامہ سراج احمد کو بھی اس مسئلہ میں اِشکالات تھے جو حل نہیں ہورہے تھے۔انہوں نے اس مسئلے کے حل کے لیے ہندوستان کے بڑے بڑے دارالعلوم ، دار الافتاء اورمفتیان کرام کے پاس وہ سوال بھیجا کہ کہیں سے بھی جواب مل جائے ، بہت سی جگہوں سے تو جواب ہی نہیں آیا اور جن چند جگہوں سے جواب آیا ، اُن سے تشفی نہیں ہوئی، بالآخر انہوں نے وہی سوال بریلی شریف اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خدمت میں ان الفاظ کے ساتھ ارسال کیا” یہ خاکسار اِس وقت ایک ایسے رسالہ علم میراث کی تصنیف میں لگاہواہے، جونہایت سَہل، مختصر اور مُنْضَبط قواعد پرمشتمل ہو۔ تقلیدِ قواعد قدیمہ کو بالکل ترک کرکے جدیدقواعد ایسے ایجاد ہوچکے ہیں کہ ایک ہی عمل کے ذریعے سے ”مناسخہ“ تک مسئلہ بن جاتاہے کہ دوسرے عملِ رَدّ، عَوْل، تصحیح وغیرہا کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ علٰی ہذالقیاس، ذَوِی الاَرْحام اوراس کے مناسخہ کی تسہیل بھی پرلے درجہ تک کی گئی ہے ، امید کہ بعدِ تکمیل وہی رسالہ بنا بر تقریظ حضور کی خدمت میں بھی ارسال کیا جائے گا ، چونکہ اَولاد صنف رابع کے قاعدہ تحریمی میں سخت اختلاف ہے ، لہٰذا حل ہونا اس مشکل کا بغیر اِمداد آں حل المشکلات صاحب کمال کے سخت مشکل ہے اور کوئی دوسرا اہل فن باکمال میری رائے میں موجودنہیں کہ حل کرسکے، پس بہرحال دوسرے شغل کوبالفعل بندفرماکر مکمل قاعدہ مفتٰی بہ بمع نقل عباراتِ فقہیہ لکھ کر ارسال فرمائیں تاکہ بعینہ آپ کے فتویٰ کودرج ِرسالہ کیاجائے۔ میرے پاس کوئی اورکتاب بجزشامی و دُر(درمختار) و فتاویٰ تنقیح الحامدیۃ کے نہیں ہے،تاکہ صریح جزئی کامسئلہ حاصل کرسکوں، جوابی لفافہ مرسل خدمت ہے، جب تک جواب نہیں آئے گا، میں سخت انتظار میں مُضْطَرِب رہوں گا اوررسالہ بھی ناقص رہے گا۔“( ) اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس کا جواب لکھا، جو فتاویٰ رضویہ میں موجود ہے اور وہ فتوی اتنا شاندار ہے کہ آج بھی اسے پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ علم کی مہارت کیا ہوتی ہے۔
اِس فتویٰ سے قبل مولانا سراج احمد مکھن بیلوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اعلیٰ حضرت سے حسنِ اعتقاد نہیں رکھتے تھے، مگر اِس فتویٰ میں آپ کی فقہی جولانی اور قوت استخراج دیکھ کر خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ اِس جواب کو دیکھنے کے بعد مولانا احمد رضا رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے متعلق میرا اندازِ فکر یکسر بدل گیا اور اُن کے متعلق ذہن میں جمائے ہوئے تمام خیالات کے تار وپود (تانے ، بانے )بکھر گئے۔ اُن کے رسائل اور دیگر تصانیف منگوا کر پڑھے تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرے سامنے سے غلط عقائد ونظریات کے سارے حجابات آہستہ آہستہ اٹھ رہے ہیں۔ اِسی دور میں احمد پور کے ایک مشہور فقیہ مولوی نظام الدین سے میری گفتگو ہوئی۔ یہ مولانا تفقہ میں اپنے ہم عصر علماء سے ممتاز تھے اور کسی کو اپنا ہمسر تصور نہیں کرتے تھے۔ (اُن سے کسی کتاب کے ) ایک فتوے پر گفتگو ہوئی کہ حدیث صحیح کے مقابل قول فقہاء پر عمل نہ کرنا چاہیے۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے رسالہ ”الفضل الموھبی فی معنی اذا صح الحدیث فھو مذھبی“ کے ابتدائی اوراق منازلِ حدیث کے انہیں سنائے تو کہنے لگے:”یہ سب منازل فہم مولانا کو حاصل تھے۔ افسوس کہ میں ان کے زمانے میں رہ کر بے خبر وبے فیض رہا۔“ پھر فقہ کے چند مسائل کے جوابات رسالہ رضویہ سے سنائے تو کہنے لگے”علامہ شامی اور صاحب فتح القدیر مولانا (احمدرضا)کے شاگرد ہیں۔ یہ تو امام اعظم ثانی معلوم ہوتا ہے۔“( )
علمائے رام پور ایک طرف، مگرحق وہی جو نو عمر صاحبزادے نے لکھا:
ایک دلچسپ واقعہ ملاحظہ فرمائیں کہ ایک مرتبہ علامہ مفتی ارشاد حسین رام پوری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ایک فتوی لکھا اور اس فتوے پر رام پور کے نواب نےمختلف مفتیان کرام سے تصدیقات وغیرہا لیں اور ہر جگہ سے اس فتوے کی تصدیق بھی ہوگئی، لیکن جب بریلی شریف سے اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا تحریر کردہ فتویٰ آیا تو وہ مفتی ارشاد حسین رام پوری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے فتوے کے برخلاف تھا ۔ اب واقعے کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔
علامہ ظفر الدین بہاری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نقل کرتے ہیں کہ مولوی اعجاز ولی خاں صاحب کا بیان ہے کہ اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عمر کا چودھواں سال تھا ، افتاء کا کام حضرت نے اپنے ذمہ لے لیا تھا کہ ایک شخص رام پور سے حضرت امام المحققین مولانا نقی علی خاں صاحب رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی شہرت سن کر بریلی تشریف لائے اور جناب مولانا ارشاد حسین صاحب مجددی کا فتوی جس پر اکثر علماء کی مواہیر و دستخط ثَبْت تھے، پیش خدمت کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ: کمرے میں مولوی صاحب ہیں، اُن کو دے دیجیے، جواب لکھ دیں گے۔ وہ کمرے میں گئے اور آ کر عرض کیا کہ کمرے میں مولوی صاحب نہیں ہیں، فقط ایک نوعمر صاحبزادے ہیں ۔ فرمایا :انہیں کو دے دیجیے، وہ لکھ دیں گے۔ انہوں نے کہا حضور میں تو جناب کی شہرت سن کر آیا تھا۔ حضرت نے فرمایا: آج کل وہی فتوی لکھا کرتے ہیں، انہیں کو دے دیجیے۔اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے جو اس فتوی کو دیکھا،تو ٹھیک نہ تھا ، چنانچہ اِس جواب کے خلاف جواب تحریر فرمایا اور اپنے والد ماجد کی خدمت میں پیش فرمایا،حضرت نے اُس فتویٰ کی تصدیق و تصویب فرمائی، پھر وہ صاحب اس فتوی کو دوسرے علماء کے پاس لے گئے، اُن لوگوں نے حضرت مولانا ارشادحسین شاہ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی شہرت دیکھ کر فتوی کی تصدیق کی۔ جب رام پور کے نواب کلب علی خاں صاحب رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خدمت میں وہ جواب پہنچا،آپ نے شروع سے اخیر تک اس فتوی کو پڑھا اور تمام لوگوں کی تصدیقات دیکھیں۔ چنانچہ سب علماء کی ایک رائےہے ، صرف بریلی کے دو عالموں نے اختلاف کیا ہے۔ نواب نے حضرت مولانا شاہ ارشاد حسین رام پوری کو یاد فرمایا، حضرت تشریف لائے،نواب صاحب نے فتوی اُن کی خدمت میں پیش فرمایا۔ حضرت رام پوری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی دیانت اور انصاف پسندی کہیے کہ صاف فرمایا:حقیقت میں وہی حکم صحیح ہے، جو اِن دو صاحبوں نے لکھا۔ نواب صاحب نے پو چھا: پھر اتنے علماء نے آپ کے فتوی کی تصدیق کس طرح کی؟ فرمایا: ان لوگوں نے مجھ پر اعتماد اور شہرت کی وجہ سے تصدیق کی اور حق وہی ہے، جو انہوں نے لکھا ہے۔ ( )
سبحان اللہ! اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اِس عمر میں بھی جو جواب لکھا ، وہی جواب درست اور صحیح تھا۔ آپ کے ابتدائی دور کے فتاوی کی عمدگی و پختگی ایسی تھی اور اللہ عزوجل کے کرم سے وقت کےساتھ ساتھ اس میں مزید پختگی اور بلندی آتی گئی ،چنانچہ پھرفتاوی میں آپ کی شانِ علم ساری دنیا نے دیکھی۔ جو اِس وقت فتاوی رضویہ کی صورت میں ہمارے سامنےموجود ہے۔
…۔ حیاتِ اعلی حضرت،صفحہ222،مطبوعہ مکتبہ نبویہ ، لاہور ۔
…۔ (فتاوی رضویہ ،جلد 26،صفحہ 377،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
… ۔(انوارِ رضا، صفحہ 191، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور)