اعلیٰ حضرت کی اعلیٰ باتیں

فن خط نویسی اور اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ:

 اعلی حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کا فن خط نویسی ،یہ ایک جدا علم شمار کیا جاسکتا ہے ،لیکن اس کے باوجود ابھی تک اس فن پر اس انداز میں  کوئی  بڑا کام معلوم نہیں، ہو سکتا ہے ہو چکا ہو، لیکن کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ چیزیں جنہیں عام طور پر  ایک عالِم کے علوم میں شمار نہیں کیا جاتا، اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  اُن میں بھی کمال مہارت رکھتے تھے، یعنی  اعلی حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  علوم دینیہ اصلیہ، علوم دینیہ آلیہ اور جو ان سے ہَٹ کر عُلوم ہیں،  جیسے ریاضی ، ہیئت ،  زائچہ ، علم مثلث، فلکیات وغیرہا پر بھی خوب دسترس رکھنے والی شخصیت تھے۔اسی طرح علم توقیت  میں اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  مہارتِ کاملہ رکھتے تھے ۔آپ  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  خود فرماتے تھے کہ ’’اسی طرح علمِ تو قیت بھی ایک ایسا فن ہے کہ اس کے جاننے والے بھی معدوم ہیں ،  حالانکہ ائمہ دین نے اسے فر ضِ کفایہ بتایا ہے ۔ علمائے موجودین میں تو کوئی اتنا بھی نہیں جانتا کہ فلاں دن آفتا ب کب طلوع ہوگا اور کب غروب ؟ بہت سی عمر گزر گئی تھوڑی باقی ہے، جن صاحب کو جو کچھ لینا ہو وہ حاصل کرلیں ”سَلُونِی قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُوْنِیْ “میرے دنیا سے جانے سے پہلے ، مجھ سے پوچھ لو۔حضرت مولیٰ علی کرَّم اللہُ تَعالٰی وَجْہَہُ الْکریم کا ارشاد ہے۔“( ) 
 اور  علمِ فلکیات و توقیت  میں اعلی حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کو اتنا کمال حاصل تھا کہ سورج دیکھ کر  گھڑی  ملا لیتے اور ایک منٹ  کا فرق بھی نہ ہوتا ۔ چنانچہ مولوی عبد اللطیف  صاحب کا بیان ہے کہ اعلی  حضرت کو ستارہ شناسی میں اس قدر کما ل تھا کہ آفتاب کو دیکھ کر گھڑی  ملا لیا کرتے تھے۔فقیر عبید الرضا نے بوقت شب ستاروں کو ملاحظہ فرماکر وقت بتانے اور  گھڑی ملانے کے واقعات بھی سنے اور دیکھے ہیں اور بالکل صحیح وقت ہوتا ایک منٹ کا بھی فرق نہ پڑتا۔( ) 

جامع علوم و فنون،حاوی ِ اصول و فروع کا مصداق:

مذکورہ بالا گفتگو کو دوسرے اسلوب میں یوں سمجھیے کہ یہ القابات ”جامعِ علوم و فنون،حاویِ فروع و اصول“عام طور پر کسی اشتہار وغیرہ میں پڑھنے کوآتے ہیں اور بعض شخصیات کے حوالے سے محسوس بھی ہوتا  ہے کہ یہ واقعی اِن اوصاف کے مالک اور ان القابات کے مستحق ہیں۔ ”معقول و منقول“ کا  مطلب ہے ، علوم عقلیہ یعنی منطق ، فلسفہ  و ریاضی  وغیرہا اور علوم نقلیہ  یعنی  قرآن  ، حدیث، فقہ، تصوف  وغیرہ علوم۔ اور ”جامع“ سے مراد  جو شخصیت ان علوم کو جاننے والی ہو،  الغرض مجموعی طور پر اُسے جامع علوم عقلیہ و نقلیہ یا جامع معقول و منقول کہتے ہیں۔دوسرا لقب  حاویِ فروع و اصول  ہے، حاوی  کا مطلب ہے: غالب، احاطہ کیے ہوئے اور فروع کا مطلب ہے :فقہی وجزوی مسائلِ شرعیہ  کہ جن کا تعلق عموماً عقائد سے نہیں ہوتا۔ اُصول کا مطلب ہے :دین کے وہ اصول کلیات کہ جن کا تعلق عقائد کے باب سے ہوتا ہے ۔اس لفظ کا  اطلاق اگر کسی پر  100فیصد درست ہو سکتا ہے، تو یقیناً  اعلی حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  پر ہو سکتا ہے اور آپ  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ   سے بڑی ہستی شاید ہی   ملے گی ،کیونکہ عام  طور پر اگر کوئی جامع معقول و منقول ہوگا، تو  دو ، چار یا دس بیس معقولات و منقولات میں ماہر ہوگا، فروع میں  صاحب ِ کامل ہوگا ، تو اصول  میں ویسی دسترس نہیں ہوگی اور  اصولی ہوگا،  تو فروعات پر ویسا عبور نہیں ہوگا، لیکن اعلی حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کی معقولات میں مہارت، منقولات پر گہری نظر ،  اصول پر دسترس اور  فروعات کا شاندار استحضار نہایت کمال کا ہےاور   آپ کی تصنیف میں یہ مہارتیں ساتھ ساتھ  چل رہی ہوتی ہیں۔  ہر  فتویٰ  میں منقول و معقول ، اصول و فروع سب جمع ہوتے ہیں۔ 
اعلی حضرت کی مرکزی تصانیف  جیسے” سبحان السبوح عن عیب کذب مقبوح “ کا مطالعہ کرکے دیکھ لیجیے، ان شاء اللہ عزوجل  آپ کو ہمارے دعویٰ کی صداقت روزِ روشن کی مانند نظر آئے گی۔ اسی طرح اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کی ایک کتاب”الاحلی من السکر لطلبہ روسر“ اس میں آپ  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے اصول و فروع اور منقولات و معقولات کا جیسا خوبصورت استعمال فرمایا ہے، اگر اسے دیکھیں، تو واضح ہو جاتا ہے کہ جامع معقول و منقول اور حاوی  فروع و اصول کا لقب  اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ   پر 100 فیصد صادق آتا ہے۔

امام اہلسُنَّت درجاتِ اجتہاد میں کس درجہ پر فائز ہیں؟

” کس درجے پر فائز ہیں؟ “کاپہلا آسان جواب یہ ہے کہ مفسرین، محدثین، فقہاء، صوفیاء، علماء،متکلمین  وغیرہا کے الفاظ کے شروع میں ”امام“ لگا دیں ، تو آپ کا درجہ و مقام سامنے آجائے گا   کہ آپ  امام المفسرین ، امام المحدثین ، امام الفقہاء ، امام الصوفیاء ، امام العلماء  اور امام المتکلمین ہیں۔ 
دوسرا جواب یہ ہے کہ  تصنیفات کسی بھی مُصَنِّف کے علوم کا عکس ہوتی ہیں ،البتہ اُس کے علوم کا پورا اظہار نہیں کرتیں، کیونکہ  بدیہی سی بات ہے کہ ایسا تو نہیں ہوتا ، کہ کسی آدمی کو جتنا علم تھا ،اُس نے وہ سارا کتاب میں منتقل کر دیا،بلکہ جو اُس نے لکھا ہے،   وہ اس کے علم کا کچھ حصہ ہوگا۔ اِس اُصول کو سامنے رکھ کر  اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کی تصانیف کا جائزہ لیں  تو معلوم ہوگا کہ آپ  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے تفسیر میں بھی  کتابیں تصنیف فرمائیں،  حدیث میں  بھی کثیر تالیفات کیں ، فقہ میں بھی ضخیم کتابیں تحریر کیں،تَصَوُّف میں بھی اَسرار ومَعَارِف و احکام بیان کیے اور دیگر کثیر علوم میں بھی بہت کچھ لکھا اور وہ سب آپ کے علوم کا کچھ کچھ حصہ ہے۔ اِس اعتبار سےدیکھیں ، تو اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  میں یہ تمام  اوصاف موجود اور تمام اَلقاب  صادق آتے ہیں کہ  آپ  عظیم محدث  بھی ہیں، بے مثال  مُفَسِّر  بھی ہیں اور لاجواب مُتکلِّم بھی ہیں۔ 
اسی طرح مجتہدین کی بات کرتے ہیں تو مجتہدین کےمختلف  درجات ہوتے ہیں۔”مجتہد فی الشرع“ سب سے اوپر کا درجہ ہے،  جیسا کہ ائمہ اربعہ اِسی مرتبہ پر فائز ہیں۔  اِس سے نیچے ”مجتہد  فی المسائل“ اور دیگر  درجات  آجاتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کے اجتہاد میں مختلف جہتوں کی جھلکیاں نظر آتی ہیں،  مثلاً  کسی جگہ آپ  کلام فرماتے ہیں، تو وہ مجتہد فی المسائل کے درجے کا ہے، کسی جگہ پر آپ کا کلام اصحاب تخریج کے مقام کا ہوتا ہے  ، کسی جگہ اصحاب ترجیح  کی شان کا کلام کرتے ہیں۔ الغرض یہ  اجتہاد کے مختلف مدارج ہیں اور اعلی حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ   میں  یہ ساری  جھلکیاں ہی نظر آتی ہیں، جس سے آپ کا مجتہد فی الشرع کے نیچے  دیگر درجاتِ مجتہدین  کے کئی اوصاف کا حامل ہونا سمجھ آتا ہے،اگرچہ درجہ متعین کرنا ہمارے بس میں نہیں اور نہ ہم اس کے اہل ہیں ۔ اس لیے مکہ مکرمہ کے ایک جلیل القدر  عالم، حافظِ کتب الحرم سیّد اسماعیل خلیل مکی  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  تحریر فرماتے ہیں:”واللہ اقول والحق اقول انه لوراها ابو حنيفة النعمان لأقرت عينه ولجعل مؤلفھا من جملۃ الاصحاب “یعنی:میں کہتا ہوں اور اللہ کی قسم سچ کہتا ہوں:اگر امام الائمہ سراج الامہ امامِ اعظم نعمان بن ثابت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  آپ کے فتاویٰ کا مجموعہ ملاحظہ فرماتے تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں اور اس کے مؤلِّف کو اپنے  شاگردوں میں شامل فرماتے۔“( ) 
سبحان اللہ! آپ کا علم اور فقاہت واقعتاً  بہت بلندمرتبے کے ہیں، لیکن علمی اعتبار سے اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کا جو سب سے زیادہ کام ہمارے سامنے آتا ہے ، وہ علم عقائد اور علم فقہ میں ہے ۔ پھر حدیث و دیگر علوم آتے ہیں۔ یہ کلام خالصتاً علم کے اعتبار سے تھا۔
 علماء کی اَقسام میں  ایک دوسری جہت  بھی ہوتی ہے جس میں یہ ضروری نہیں ہوتا ، کہ علم بہت زیادہ ہو ، بلکہ وہاں اصلِ کمال  اپنے علم پر  اِخلاص کے ساتھ عمل کرنا ہوتا ہے۔ جب کسی شخصیت میں  علم و عمل کاکامل  اشتراک ہو ،تو اسے ”عالِم رَبَّانی“ کہا جاتا ہے اورقرآن مجید کی اصطلاح میں  وہ پاکیزہ گروہ ، علماء ربانیین کہلاتا ہے،چنانچہ قرآن مجید میں ہے:(وَ لٰـكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَ بِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ) ترجمہ :بلکہ وہ یہ کہے گا کہ اللہ والے ہوجاؤ ،کیونکہ تم کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور اس لیے کہ تم خود بھی اسے پڑھتے ہو۔( ) 
اس اعتبار سے اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ   کی شخصیت کو دیکھا جائے، تو علم و عمل دونوں  اوصاف سے متصف ہیں، جس وجہ سے آپ علمائے ربانیین میں آتے ہیں۔ 
 ایک تیسرا علمی درجہ ہوتا ہے جسے ”مُجَدِّد“ کہا جاتا ہے۔حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم   صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ  وَسَلَّمَ    نے فرمایا:”ان اللّٰہ یبعث لھذہ الأمۃ علی رأس کل مائۃ سنۃ من یجدد لھا دینھا“ ترجمہ: اللہ تعالیٰ اِس امت میں ہر سو سال کے اختتام پر  ایک ایسا شخص بھیجے گا جو امت کے  لیے اُن کے دین کی تجدید کرے گا ۔( ) 
 مُجَدِّد وہ ہے  جوکسی ہجری صدی کے اختتام کے قریب بھیجا جاتا ہے اور ایک صدی کے اختتام اور اگلی صدی کے آغاز میں نہایت اعلیٰ درجے کی خدمات ِ دینیہ  سرانجام دیتا ہے، اہل ِ اسلام کا مرجع اور امت کے لیے بہت بڑا سہارا بنتا ہے اور علم و عمل کا جامع ہوتا ہے۔  اس اعتبار سے اعلی حضرت پر مجددکا اطلاق ہوتا ہے اور آپ کے اس منصب کا اقرار تمام اہل حق علمائے زمانہ نے کیا ۔ 

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی شہرت کے اسباب :

یہاں ایک سوال ہوتا ہے کہ  ہر صدی میں مُجَدِّدِین آتے رہے ہیں تو  اُن کو اتنی شہرت نہ ملی جتنی اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کے مقدر میں آئی، اِس کی کیا وجہ ہے؟ اور جو مجدد پہلے گزرے اُن کے کیا نمایاں کارنامے تھے ؟اس کا جواب یہ ہے  کہ مجدد کا معنی تو اوپر واضح ہوگیا کہ مجدد وہ ہوتا ہے جو ہجری صدی میں کسی  صدی کے آخر میں اور دوسری صدی کی ابتداء میں لوگوں کے لیے مرجع  ہوتا ہے اور لوگوں کا اس کی طرف علمی  ، دینی یا   روحانی مسائل کے اعتبار سے  رجوع ہوتا ہے۔  دین پر پچھلے عشروں میں  جو بد عقیدہ لوگوں نے ملاوٹیں کردیں  ہوں یا لوگوں کی جہالت کی وجہ سے اسلامی احکام پوشیدہ ہو گئے  ہوں یا امت بہت سے فتنوں میں مبتلا ہوگئی ہو ، تو مجدد آکر ان ضلالتوں ، بدعتوں ، جہالتوں اور خرافات کا قلع قمع کرتا ہے، دین کے شفاف چہرے پر آنے والی گرد کو صاف کرتا  ہے،دین کو دوبارہ اسی خوبصورت رنگ میں لوگوں کے سامنے پیش کر تا ہے۔ 

اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی شانِ مجددیت:

 اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کے زمانے میں پوری  دنیا  میں  اکثر اسلامی سلطنتیں مغلوب ہو چکی تھیں اور ان پر غیر مسلم طاقتوں کا غلبہ تھا اور غیر مسلم طاقتیں  ریاست کو مغلوب کرکے صرف حکومت کرنے نہیں آئی تھیں ،  بلکہ وہ مسلمانوں کے عقائد،اَقدار، اَخلاق،  ہر شے کو نقصان پہنچانے اور تبدیل کرنے کی خواہاں تھیں،  پھر کفار کو اچھی طرح یہ علم  ہے کہ  مسلمانوں کے لیے سب سے عظیم دولت نبی کریم   صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ  وَسَلَّمَ    کی محبت اور تعظیم ہے  ، اس لیے  انہوں نے  اس پہلو کے اعتبار سے  مسلمانوں پر بکثرت وار کیے، جیسا کہ  پاک و ہند کے خطے میں  انیسویں صدی کے آغاز میں ختم نبوت کے انکار اور نبوت کے جھوٹے دعوے کا فتنہ اِسی سازش  کی ایک  کڑی تھی ،پھر جو نبی پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گستاخیاں کی گئیں،  وہ بھی اسی کا نتیجہ تھا۔ اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے ان فتنوں کا بھرپورمقابلہ کیا اور عظمت  و شانِ رسالت، منصب ِ نبوت، مقامِ مصطفی ،محبت  رسول   صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ  وَسَلَّمَ    کے  موضوعات پر آپ نے عشق و محبت اور  تعظیم ِ مصطفیٰ    صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ  وَسَلَّمَ    سے لبریز علمی شاہکار کُتُب تصنیف فرمائیں اور مسلمانوں کے دلوں کو عشقِ رسول کی چاشنی سے بھر دیا۔
ڈال دی قلب میں عظمتِ مصطفیٰ
سیدی اعلیٰ حضرت پہ لاکھوں سلام

اب رہی یہ بات کہ پچھلی صدیوں میں جو مجدد گزرے ہیں، ان کا اتنا تذکرہ کیوں نہیں ہوتا؟

اس کی ایک وجہ تو یہ  ہو سکتی ہے کہ زمانے کے بدلنے سے تشہیر کے ذرائع میں اتنی بڑی تبدیلی آچکی ہے کہ  پچھلے زمانے میں ایک بات لکھی جاتی تھی، دنیا بھر میں پہنچتے   پہنچتے  سو سال لگ جاتے تھے، اب کے زمانے میں آپ ایک کتاب لکھتے ہیں اور کتاب جیسے ہی  نیٹ پر ڈالتے ہیں، تو  ایک دن میں پوری دنیا  میں پہنچ جاتی ہے ، تو تشہیر کے پیمانے بدل  گئے  ہیں، پچھلے زمانے میں جو مجددین تھے، ان کے زمانے میں یہ اَسباب نہیں تھے ،تو اب چونکہ وہ اسباب موجود ہیں، لہٰذا اب تشہیر کا معاملہ زیادہ آسان ہوگیا۔
 دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ بہت سے مجددین وہ ہیں کہ جن کی شہرت بہت اعلیٰ قسم کی ہے، لیکن وہ بحیثیت مجدد  اتنے معروف نہیں  ہیں،جتنی اپنی دوسری حیثیات سے معروف ہیں، اس کی مثالیں یہ ہیں:
 پہلی صدی کے مجدد حضرت عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ  ہیں۔ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ  کو کون دین دار مسلمان نہیں جانتا؟سب جانتے ہیں کہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ   اَمْوِی خاندان کی  وہ ہستی ہیں ، جو اپنے  وقت کے مَظالِم  ختم کر کے سلطنت کو خالص خلافت راشدہ کے انداز  پر لے آئے ، آپ اسلام کے پہلے مجدد  تھے ،لیکن چونکہ  آپ کی حیثیت خلیفہ راشد ہونے کے اعتبار سے اور  نظام مملکت کو اسلامی بنانے کے اعتبار سے  اتنی نمایاں ہو گئی کہ مجددیت والا وصف  اتنا زیادہ بیان نہیں ہوا ، جس وجہ سے آپ کا مجدد ہونا اہل ِ علم  جانتے ہیں ، لیکن زیادہ تر عوام نہیں جانتی۔ 
  دوسری صدی کے مجدد امام شافعی  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  ہیں،یقیناً  جو علم کی دنیا ، خصوصاً علم فقہ سے وابستہ ہے، وہ امام شافعی  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کو ضرور  جانتاہے، لیکن چونکہ وہ  مجتہد ہیں اور مجتہد کا مرتبہ مجدد سے بڑا ہوتا ہے، توان کا  وہ وصف  ایسا غالب ہے کہ مجدد والے نام کے ساتھ ان کا  تذکرہ  کم ملتا ہے ۔ 
اس کے بعد امام  ابو الحسن اَشعری  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  اپنی صدی کے مجدد ہیں ،لیکن اُن کا کام علم الکلام یعنی عقیدے کے دقیق مسائل  میں تھا، جیسے اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ   کا کام شان رسالت کا ہے، یعنی یوں کہہ لیں کہ شانِ رسالت  گھر گھر، گلی گلی  اور مسجد مسجد کا موضوع ہے کہ نبی کریم    صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ  وَسَلَّمَ    کی عظمت و شان سننا، بیان کرنا، نعتیں پڑھنا ،سننا مسلمانوں میں بہت عام ہے، لہٰذا عوام اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  سے واقف ہے، لیکن امام ابو الحسن اشعری  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کاکلام مُعْتزِلہ ، مُجَسِّمَہ ،مُشَبِّهہ، مُعَطِّلہ اور مُرْجِیہ فرقوں  کے مقابلے میں تھا۔  یہ سب پرانے زمانے کے فرقے ہیں ، ان سے جو مباحث ہیں،  وہ بھی اتنی پیچیدہ ہیں کہ اچھے اچھے علماء کو سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے،   تو عوام کو کیا  سمجھ آئے گی،  یوں امام ابوالحسن اشعری  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کا نام عوام میں  کم ہے ۔
سابقہ  مجددین کی شہرت  کم ہونے کے باوجود  چند  ایسی ہستیاں ہیں،جن کانام  واقعتاً بڑا معروف ہے،جیسے امام غزالی  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وغیرہ ۔ آپ  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  اپنی  صدی کے مجدد ہیں اورآپ کا نام سب کو معلوم  ہے، اِسی طرح امام فخر الدین رازی، علامہ جلال الدین سیوطی اور مجدد الف ثانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہم  وہ ہستیاں ہیں کہ جن کانام بطور مجدد بھی بڑا معروف ہے ۔ 
 خلاصہ کلام یہ ہوا کہ بعض مجددین کے معروف نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ  ان کی کوئی اور حیثیت ان کے وصف ِمجددیت پر غالب رہی یا  دوسری وجہ یہ کہ ان کا کام ایسی فیلڈ (Field)میں تھا کہ جو عوام میں معروف نہیں ہوا ۔ اُنہیں میں امام زین الدین عراقی ، امام ابن عبد السلام،  علامہ سخاوی، شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ، بادشاہ اورنگ زیب عالَمگیر ، شیخ عبد الحق محدث دہلوی ، ملا علی قاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہم کے نام ہیں۔
اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کی زیادہ شہرت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ آپ   رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ   کا زمانہ   ہمارے قریب گزرا ہے ، اس لیے  ان کا ذکر زیادہ ہوتا ہے،  نیز  جن فتنوں کا اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے مقابلہ کیا تھا ،وہ فتنے ابھی تک  چل رہے ہیں، جیسے  ختم نبوت کے انکار کا فتنہ کہ  اعلی حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ   نے ختم نبوت کے عقیدے کا تحفظ کیا،یونہی شانِ مصطفی   صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ  وَسَلَّمَ    چُھپانے کا فتنہ  ابھی تک جاری ہے اور اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے تعظیمِ مصطفیٰ   صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ  وَسَلَّمَ    ہی کا سب سے زیادہ درس دیا، تو چونکہ شانِ رسالت کے انکار کے  فتنے کی باقیات ابھی تک موجود ہیں، جس کا مقابلہ کرنے کےلئے حقائق و دلائل بیان کیے جاتے ہیں  اور اس ضمن میں اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کا ذکرِ خیراور آپ  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کی کتابوں کا استعمال    کیا جاتا ہے۔

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عظمت و شان کے اسباب:

سب سے بڑا سبب  تو وہی ہے جو اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے خود بیان فرمایا کہ بارگاہ رسالت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے یہ سارے علوم  اور تمام کمالات  عطا کیے گئے اور یہی  اصل الاصول ہے اور یہ فضل الٰہی ہے ۔( ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ) ترجمہ:یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے۔
حقیقت ِ حال یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے دین کی خدمت کے لیےکچھ لوگوں کو منتخب فرما لیتا ہے ، کیونکہ نبی اکرم   صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ  وَسَلَّمَ    کے بعد اب کوئی نیا نبی  نہیں آئے گا ،تو اب اللہ تعالی  اِس دین کے  پھیلانے  اور اس کے تحفظ کا کام اسی امت سے لیتا ہے اور امت بحیثیت اجتماعی بھی یہ  کام کرے گی اور کچھ انفرادی شخصیات بھی اس کام کو خصوصی طور پر سرانجام دیں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ   ہر زمانے  میں اس وقت کی ضرورت کے اعتبارسے شخصیات آتی گئیں ،  تو یوں یہ ایک انتخاب الٰہی ہے کہ رب تعالیٰ جسے چاہتا  ہے، اپنے دین کی خدمت کے لیے چُن لیتا ہے ۔ 
 پھر جب اللہ تعالیٰ کسی سے کام  لینے کا ارادہ فرماتا  ہے تو  اس کے مطابق  اُسے صلاحیتیں بھی عطا فرما دیتا ہے۔  اعلیٰ حضرت   رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  سے رب کریم نے جو کام لینا تھا، اس کا تعلق علم سے تھا اور علم کے لیے حافظہ و ذہانت نہایت ضروری ہیں،  یوں آپ  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کو بے مثل حافظہ اور  اعلیٰ درجے کی ذہانت عطا کی گئی، یہ خالصتاً عطائی چیزیں ہوتی ہیں، جبکہ   کچھ چیزوں کا تعلق انسان کی کاوِش کے ساتھ بھی  ہوتا ہے، جیسے  اعلیٰ درجے کا اخلاص ہونا چاہیے اور اخلاص   اپنی محنت سے حاصل  کیا جاتا ہے، پھرکسی کاجتنا اخلاص ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس میں اتنی برکت  ڈال دیتا ہے۔ 
اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کی رِفعتوں کا ایک سبب  یہ  بھی ہے کہ اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے بزرگوں سے بہت زیادہ  دعائیں لی ہیں اور دعا بھی  دنیا کے لیے  نہیں ، بلکہ  ہمیشہ آخرت کے لیے   کرواتے ، چنانچہ اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں: بریلی میں ایک مجذوب، بشیر الدین اخوندزادہ کی مسجد میں رہا کرتے تھے۔ جو کوئی ان کے پاس جا تا کم سے کم پچاس گالیاں سناتے ، مجھے ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا شوق ہوا۔ میرے والد ماجد قدس سرہ کی خوشی تھی کہ کہیں باہر بغیر آدمی ساتھ لیے نہ جانا ۔ ایک روز رات کے گیارہ بجے اکیلا اُن کے پاس پہنچا اور فرش پر جا کر بیٹھ گیا۔ وہ حجرہ میں چار پائی پر بیٹھے تھے۔ مجھ کو بغور پندرہ منٹ تک دیکھتے رہے ،آخر مجھ سے پوچھا تم مولوی رضا علی خاں صاحب کے کون ہو؟ میں نے کہا: میں ان کا پوتا ہوں ۔ فوراوہاں سے جھپٹے اور مجھ کو اٹھا کر لے گئے ،اور چار پائی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: آپ یہاں تشریف رکھیے۔ پوچھا کیا مقدمہ کے لیے آئے ہو؟ میں نے کہا: مقدمہ تو ہے، لیکن میں اس کے لیے نہیں آیا ہوں، میں تو صرف دعائے مغفرت کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ قریب آدھے گھنٹے تک برابر کہتے رہے ،اللہ کرم کرے، اللہ رحم کرے ،اللہ کرم کرے ،اللہ رحم کرے۔( ) 

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اور والِدہ کا ادب:

اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  پر فضلِ الٰہی کا ایک سبب والدین کی خدمت و تعظیم اور ان کی دعائیں بھی ہیں۔ اعلی حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے اپنے والدین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہما سے بھی بہت دعائیں لیں اور سب جانتے ہیں کہ والدین کی خدمت ،ان کی تعظیم اور ان کا ادب جتنا زیادہ کیا جاتا ہے،اتنی دعائیں ملتی ہیں۔ اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کا والدہ کے ادب کا ایک خوبصورت واقعہ  ہے کہ  اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ   اپنے  بیٹے مولانا حامد رضاخان   رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ   کو سبق پڑھا رہے تھے ،  طریقہ یہ تھا کہ  اعلیٰ حضرت پچھلا سبق سن کر آگےدیتے تھے، پچھلاسبق جو سنا، تو وہ یاد نہ تھا، اِس پر ان کو سزا دی۔اعلی حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ   کی والدہ محترمہ  جو دوسرے دالان کے کسی گوشے میں تشریف فرما تھیں،انہیں کسی طرح  اس کی خبر ہوگئی۔وہ حضرت حجۃ الاسلام (مولانا حامد رضاخان)کو بہت چاہتی تھیں، بھری ہوئی آئیں اور اعلیٰ حضرت قبلہ کی پشت پر ایک دو ہاتھ مارے اورفرمایا:تم میرے حامد کو مارتے ہو!اعلیٰ حضرت فورًا جھک کر کھڑے ہو گئے اور اپنی والدہ محترمہ سے عرض کیا:اماں اور مارئیےجب تک آپ کا غصہ فَرو(ختم) نہ ہو۔یہ کہنے کے بعد انہوں نے ایک دو ضربیں اور لگائیں، اعلیٰ حضرت سر جھکائے کھڑے رہے، یہاں تک کہ وہ خود واپس تشریف لے گئیں۔اس وقت جو غصے میں ہونا تھا ہو گیا،مگر بعد میں اس واقعہ کا ذکر جب بھی کرتیں تو آبدیدہ ہو کر فرماتیں کہ دو ہاتھ مارنے سے پہلے میرے ہاتھ کیوں نہ ٹوٹ گئےکہ ایسے مطیع و فرماں بردار بیتے کہ جس نے خود کو پِٹِنےکے لیے پیش کر دیا، کیسے مارا؟ افسوس! ( ) 
اب خود غور کرلیں کہ ایسی تعظیم   کے بعد دعائیں کیسی ملتی ہیں ،تو اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ   نے جو بزرگوں سے اور والدین سے دعائیں لی، اس کا اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کی خدماتِ دینیہ کی کثرت و برکت میں بہت عمل دخل ہے ۔
 اس کے علاوہ اعلیٰ حضرت کی محنت بھی بہت بڑا سبب ہے کہ  دو، اڑھائی گھنٹے سونااور بقیہ تمام وقت علم دین میں لگے رہنا، پھر اس کے ساتھ ساتھ وقت ضائع نہ کرنا، پھر زندگی کا بڑا مقصد رکھنا، یہ سب وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعے بڑے بڑے کارہائے نمایاں سر انجام دئیے جاتے ہیں۔
اللہ کریم ہمیں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے نقشِ قدم پر چلنے اور آپ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین بجاہ خاتم النبیین   صلی اللہ علیہ و سلم

 … ۔(ملفوظات اعلی حضرت ،حصہ اول ،صفحہ 142،مکتبۃ المدینہ)
 … ۔(حیات اعلی حضرت ،صفحہ 248،مطبوعہ مکتبہ نبویہ،لاہور)
 … ۔(الاجازات المتینہ،صفحہ 11،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
 … ۔(پارہ3،سورہ اٰل عمران،آیت79)
 … ۔(ابو داؤد،اول کتاب الملاحم،باب ما یذکر فی  قرن المائۃ،04/148،حدیث:4291)
 … ۔(ملفوظات اعلی حضرت،حصہ چہارم،صفحہ 490،مکتبۃ المدینہ)
 … ۔(سیرت اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان ،صفحہ 96،مطبوعہ  لاہور)